ٹرمپ انتظامیہ کے حالیہ فیصلے کے تحت بین الاقوامی طلبہ کے لیے ویزا اپائنٹمنٹس کو عارضی طور پر معطل کرنے کا اقدام دنیا بھر میں شدید تشویش کا باعث بن گیا ہے۔ سی بی ایس کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایک لیک ہونے والے میمو سے پتا چلا ہے کہ امریکی سفارت خانے طلبہ کے ویزے جاری کرنے کو روک رہے ہیں اور درخواست دہندگان کے سوشل میڈیا پروفائلز کی جانچ سخت کر رہے ہیں۔
یہ اقدام صدر ٹرمپ اور امریکہ کی بڑی جامعات کے درمیان کشیدگی کو مزید گہرا کرتا ہے، جن پر انہوں نے بائیں بازو کی جانب جھکاؤ اور بعض معاملات میں ’’یہود مخالف رویے‘‘ کو فروغ دینے کا الزام لگایا ہے۔
اس فیصلے کا اثر بہت بڑا ہے: اوپن ڈورز کے اعداد و شمار کے مطابق تعلیمی سال 2023–2024 میں تقریباً 1.1 ملین بین الاقوامی طلبہ امریکی اداروں میں داخل تھے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق بھارت (تقریباً 330,000 طلبہ) سے تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے امریکہ رسائی کو سخت کرتا جا رہا ہے، طلبہ متبادل راستوں کی طرف دیکھیں گے، جیسے کہ کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا اور جرمنی — یہ تمام ممالک فعال طور پر بین الاقوامی ٹیلنٹ کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔
یہ ویزا پابندی نہ صرف انفرادی تعلیمی خوابوں کو خطرے میں ڈالتی ہے بلکہ عالمی اعلیٰ تعلیم کے بہاؤ کو از سر نو ترتیب دینے کا سبب بن سکتی ہے۔