ضیاءالدین یونیورسٹی میں ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے تحت "جعلی خبریں: اثرات اور نتائج کی تفہیم” کے عنوان سے ایک میڈیا لٹریسی ٹریننگ سیشن منعقد ہوا جس کا مقصد طلبہ اور فیکلٹی کو جعلی خبروں کی پہچان، ان کے اثرات اور زمہ دارانہ میڈیا استعمال سے متعلق آگاہی دینا تھا۔
اس تربیتی نشست کا مقصد شرکاء کو تنقیدی سوچ کی مہارتیں فراہم کرنا تھا تاکہ وہ جعلی خبروں کی شناخت کر سکیں، ان کے سماجی نتائج کو سمجھ سکیں اور باخبر اور اخلاقی طور پر میڈیا کا استعمال کر سکیں۔ ساتھ ہی اداروں اور افراد کے کردار پر زور دیا گیا جو غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے میں اہم ہیں۔
ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) سے وابستہ سینئر صحافی رفت سعید نے سوشل میڈیا پر ذمہ دارانہ رویے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی غیر تصدیق شدہ پوسٹ کو لائک یا شیئر کرنا قانونی یا ساکھ کے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ انہوں نے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آگاہی ورکشاپس کی اشد ضرورت ہے تاکہ لوگ خبری ذرائع کی تصدیق کرنا سیکھ سکیں۔
معروف سینئر صحافی فہیم صدیقی نے وضاحت کی کہ کس طرح غلط معلومات (مِس انفارمیشن) بالآخر بدنیتی پر مبنی جھوٹی معلومات (ڈس انفارمیشن) میں تبدیل ہو کر سماج میں افراتفری اور تقسیم پیدا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ سائبر کرائمز کی نگرانی کیلئے قانونی فریم ورک موجود ہے، لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات کے تیز پھیلاؤ نے افراد اور برادریوں کو زیادہ کمزور بنا دیا ہے۔
ضیاءالدین یونیورسٹی کے ہیڈ آف پی آر اینڈ کمیونیکیشنز عامر شہزاد نے زور دیا کہ جعلی خبروں کے خلاف کارروائی صرف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ذمہ داری ہے کیونکہ اس کے نتائج پورے معاشرے اور قوم کیلئے خطرناک ہو سکتے ہیں۔
آخر میں، کالج آف نرسنگ اینڈ مڈوائفی کی پرنسپل ڈاکٹر سمیرا خواجہ پنجوانی نے مہمان مقررین کا شکریہ ادا کیا اور جعلی خبروں کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے اجتماعی شعور بیدار کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہم سب کی شہری ذمہ داری ہے کہ ہم خود کو اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو اس خطرے سے محفوظ رکھیں۔
اس سیشن میں طلبہ، اساتذہ اور انتظامیہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی، اور اختتام پر سوال و جواب کا ایک مفید سیشن ہوا جس میں طلبہ نے موضوع کی مزید تفہیم حاصل کی_