روس اور امریکہ کے درمیان الفاظ کا تبادلہ ایک نئی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کو "مکمل طور پر پاگل” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یوکرین میں جاری روسی فضائی کارروائیاں "بلاوجہ انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بن رہی ہیں۔”
یہ بیان روس کی جانب سے یوکرین پر کیے گئے سب سے بڑے فضائی حملے کے بعد سامنے آیا، جس میں 367 ڈرونز اور میزائل داغے گئے۔ ان حملوں میں کم از کم 13 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔
ٹرمپ نے اتوار کے روز اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا:
"پوتن کے ساتھ میرے تعلقات ہمیشہ بہتر رہے، لیکن وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کسی طور درست نہیں۔”
کریملن کا ردعمل
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے پیر کے روز کہا کہ ٹرمپ کا بیان "جذباتی دباؤ” کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول،
"یہ بیان موجودہ حالات میں متعلقہ فریقین کے جذباتی دباؤ کی عکاسی کرتا ہے۔”
یوکرین میں فضائی حملے
روسی وزارتِ دفاع کے مطابق، حالیہ فضائی کارروائیاں یوکرین کی جانب سے روسی سوشل انفراسٹرکچر پر حملوں کے جواب میں کی گئیں۔ یوکرینی ایئر فورس کا کہنا ہے کہ گزشتہ رات کو کیے گئے ڈرون حملے اب تک کی سب سے بڑی کارروائی تھی۔
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے ان حملوں کو "سیاسی فیصلہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا کوئی عسکری مقصد نہیں ہے۔
"یہ ایک واضح پیغام ہے کہ روس جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے،” زیلنسکی نے کہا۔
جرمن موقف میں تبدیلی
ادھر، جرمن چانسلر فریڈرِخ میرٹز نے کہا ہے کہ یوکرین کو دیے گئے ہتھیاروں پر اب رینج کی کوئی پابندی نہیں ہو گی۔
"یوکرین اب اپنے دفاع میں روس کے اندر موجود عسکری اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے،” انہوں نے کہا۔
اگرچہ جرمن حکومت کی جانب سے ٹارس میزائلوں کی فراہمی کی باضابطہ تصدیق نہیں کی گئی، تاہم سیاسی حلقوں میں اس امکان پر بحث جاری ہے۔
جنگ بندی کی کوششیں
ٹرمپ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان کی پوتن سے حالیہ دنوں میں دو گھنٹے طویل فون کال ہوئی، جس میں ایک ممکنہ سیزفائر پر بات چیت ہوئی۔ ان کے مطابق، دونوں ممالک فوری طور پر مذاکرات شروع کرنے پر آمادہ ہیں۔
تاہم روس کی جانب سے صرف "مستقبل میں ممکنہ امن کے لیے ایک یادداشت” پر کام کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے، جسے یوکرین اور اس کے یورپی اتحادی تاخیری حربہ قرار دے رہے ہیں۔