گزشتہ چند برسوں میں پاکستان نے خود کو ماحولیاتی بحران کے فرنٹ لائن پر پایا ہے۔ اگرچہ حکومتی مہمات جیسے "بلین ٹری سونامی” نے بین الاقوامی سطح پر تعریف سمیٹی ہے، لیکن زمینی حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور تشویشناک ہے۔
ملک میں ہر طرف درخت لگانے کی بات ہو رہی ہے، لیکن پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کا مسئلہ صرف بنجر زمین کو سرسبز بنانے تک محدود نہیں۔ کلائمٹ رسک انڈیکس 2025 کے مطابق، پاکستان 2022 میں دنیا کا سب سے زیادہ ماحولیاتی آفات سے متاثرہ ملک تھا۔ تاریخی سیلابوں نے 81 لاکھ افراد کو بے گھر کیا، 1,700 جانیں لے لیں، اور 15 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
یقیناً درخت ضروری ہیں، مگر گلوبل وارمنگ، گلیشیئرز کا پگھلنا، غیر متوقع مون سون بارشیں، اور ہیٹ ویوز جیسے مسائل صرف درخت لگا کر حل نہیں ہو سکتے۔ یہ وہ نظامی مسائل ہیں جن کی جڑیں عالمی آلودگی، ناقص منصوبہ بندی، پرانا انفراسٹرکچر، اور عوامی شعور کی کمی میں پیوستہ ہیں۔
پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے (0.8%)، مگر وہ بدترین نتائج بھگت رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومتی ردعمل صرف شجرکاری تک محدود ہے۔ موسمیاتی مطابقت، ابتدائی وارننگ سسٹمز، پانی کے نظم، اور ماحولیاتی تعلیم جیسے اہم پہلوؤں پر توجہ نہیں دی جا رہی۔
جب تک حکومت درختوں کی تصویری مہمات سے ہٹ کر جامع موسمیاتی پالیسی کی طرف نہیں جائے گی، پاکستان کو اس بحران کا بوجھ اٹھاتے رہنا ہوگا جس میں اس کا حصہ انتہائی کم ہے۔