شمال مشرقی بھارت میں شدید مون سون بارشوں کے باعث آنے والے تباہ کن سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں کم از کم 30 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں، حکام اور میڈیا نے اتوار کو اطلاع دی۔
آسام میں آٹھ ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی، جن میں گوہاٹی میں مٹی کے تودے تلے دب کر ایک ہی خاندان کے تین افراد ہلاک ہو گئے۔ شدید بارشوں نے شہر کے کئی حصے زیر آب کر دیے، جس پر حکام نے ہفتے کے روز اسکولوں اور کالجوں کو بند کر دیا اور بجلی کی فراہمی منقطع کر دی تاکہ کرنٹ لگنے کے خطرات سے بچا جا سکے، آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے بتایا۔
ہمساۤیہ ریاست اروناچل پردیش میں نو افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی، جن میں سے بیشتر مٹی اور ملبے کے نیچے دب گئے۔ میزورم میں لینڈ سلائیڈنگ کے باعث پانچ افراد جان سے گئے، جب کہ میگھالیہ میں چھ افراد کی موت ہوئی۔ ناگالینڈ اور تریپورہ میں دو، دو ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی۔
میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ کونراڈ کے سنگما نے ہنگامی ٹیموں کو چوکس رہنے کی ہدایت کی، خاص طور پر لینڈ سلائیڈنگ کے خطرے والے اور نشیبی علاقوں میں۔
دوسری جانب بھارتی فوج نے منی پور میں بڑے پیمانے پر ریسکیو آپریشن شروع کر دیا، جہاں سینکڑوں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا اور خوراک، پانی اور دیگر ضروری ادویات فراہم کی گئیں۔
بھارتی محکمہ موسمیات نے آئندہ دنوں میں مزید شدید بارشوں کی پیش گوئی کی ہے اور کئی شمال مشرقی اضلاع کے لیے ریڈ الرٹ جاری کیا ہے۔ ہمالیہ سے بہنے والا برہم پتر دریا اپنی حدود سے باہر نکل آیا ہے، جس سے بڑے علاقے زیر آب آ گئے اور کئی بستیاں کٹ کر رہ گئیں۔
بھارت میں جون سے ستمبر تک مون سون کا موسم زراعت کے لیے انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے، مگر اکثر مہلک ثابت ہوتا ہے کیونکہ خستہ حال انفراسٹرکچر شدید موسم کا مقابلہ نہیں کر پاتا۔ ہر سال درجنوں افراد مون سون کے دوران سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے سبب ہلاک ہو جاتے ہیں۔
گزشتہ ماہ ممبئی میں مون سون کی بارشیں دو دہائیوں میں پہلی بار معمول سے تقریباً دو ہفتے پہلے شروع ہوئیں، جس نے موسم میں تبدیلیوں پر نئی تشویش پیدا کر دی۔ اگرچہ سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی جنوبی ایشیا میں موسم کو متاثر کر رہی ہے، مگر اس کا مون سون سسٹم پر اصل اثر ابھی تک واضح نہیں۔