کراچی: امریکی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جاری عالمی جنگ میں "شاندار شراکت دار” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے داعش کے خلاف مؤثر کارروائیاں کی ہیں اور امریکہ کے ساتھ انٹیلیجنس شیئرنگ مضبوط رہی ہے۔
واشنگٹن میں امریکی ایوانِ نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے جنرل کوریلا نے پاکستانی فورسز کی طرف سے داعش خراسان کے خلاف کی جانے والی حالیہ کارروائیوں اور اعلیٰ سطحی دہشت گردوں کی گرفتاریوں کو سراہا۔
"پاکستان اس وقت دہشت گردی کے خلاف فعال جنگ میں مصروف ہے، اور انہوں نے ہمارے ساتھ شاندار شراکت داری کا مظاہرہ کیا ہے،” جنرل کوریلا نے کہا۔
"انہوں نے محدود انٹیلیجنس کی بنیاد پر داعش خراسان کے خلاف کارروائیاں کیں، اور متعدد ہائی ویلیو دہشت گردوں کو گرفتار کیا۔”
انہوں نے گزشتہ سال کے ایک واقعے کا ذکر کیا جس میں پاکستانی حکام نے ایک داعش جنگجو کو گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کیا، جس پر 2021 کے کابل ایئرپورٹ حملے کی منصوبہ بندی کا الزام تھا۔ اس حملے میں 13 امریکی فوجی اور 160 سے زائد افغان شہری ہلاک ہوئے تھے۔
جنرل کوریلا نے مزید انکشاف کیا کہ پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ذاتی طور پر انہیں ایک اہم داعش رہنما کی گرفتاری سے متعلق اطلاع دی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور افغان طالبان سرحدی علاقوں میں داعش کے خلاف مشترکہ آپریشنز کر رہے ہیں۔
اگرچہ ماضی میں ڈرون حملوں، سرحد پار عسکریت پسندی، اور خارجہ پالیسی کے اختلافات پر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی رہی ہے، لیکن جنرل کوریلا نے واضح کیا کہ انٹیلیجنس تعاون پر مبنی فوجی تعلقات اب بھی مضبوط ہیں۔
گزشتہ ماہ واشنگٹن میں دونوں ممالک کے درمیان انسداد دہشت گردی پر باضابطہ مذاکرات ہوئے، جن میں تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور داعش کے خطرات پر بات کی گئی۔ آئندہ مذاکرات رواں ماہ کے آخر میں متوقع ہیں۔
امریکی حکام نے حالیہ بیانات میں تسلیم کیا ہے کہ پاکستان خطے میں دہشت گردی کے خطرات کو محدود کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، حالانکہ ملک اندرونی سیاسی اور معاشی چیلنجز کا بھی سامنا کر رہا ہے۔