اسرائیل پر فلسطینی شہریوں کو نشانہ بنانے کے ذریعے انسانیت کے خلاف جرم، یعنی ’نسل کشی‘ (Extermination) کا ارتکاب کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے، خاص طور پر غزہ میں اسکولوں، مساجد اور دیگر مذہبی مقامات پر حملوں کے تناظر میں، جیسا کہ اقوام متحدہ کے ایک تازہ ترین کمیشن کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے آزاد بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن برائے مقبوضہ فلسطینی علاقہ جات (جس میں مشرقی یروشلم اور اسرائیل بھی شامل ہیں) نے منگل، 10 جون 2025 کو شائع کردہ اپنی رپورٹ میں ان حملوں کی تفصیلات پیش کی ہیں، جن میں بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزیوں کا ذکر ہے، جن میں جنگی جرائم جیسے کہ جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ بنانا اور دانستہ قتل شامل ہیں— خاص طور پر تعلیمی اداروں پر ان حملوں میں جن کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہری جاں بحق ہوئے۔
کمیشن کی چیئر اور سابق اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق ناوی پیلائی (Navi Pillay) نے کہا:
”ہم فلسطینی زندگی کو غزہ سے مٹانے کی ایک منظم اور دانستہ مہم کے شواہد میں مسلسل اضافہ دیکھ رہے ہیں۔“
کمیشن کے مطابق، غزہ کے 90 فیصد سے زائد اسکولوں اور یونیورسٹیوں کی عمارتوں کو نقصان پہنچا یا تباہ کر دیا گیا ہے، اور علاقے کے نصف سے زیادہ مذہبی اور ثقافتی مقامات بھی مسمار ہو چکے ہیں۔
اگرچہ تعلیمی اور ثقافتی ڈھانچے کی تباہی بذات خود قانونی لحاظ سے نسل کشی کی تعریف پر پوری نہیں اترتی، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے اقدامات سے ’ایک محفوظ گروہ کو تباہ کرنے کے ارادے‘ کا اشارہ مل سکتا ہے۔
پیلائی نے خبردار کیا
”فلسطینی ثقافتی، تعلیمی اور مذہبی زندگی پر اسرائیلی حملے موجودہ اور آنے والی نسلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں، جو ان کے حق خود ارادیت کو بھی مجروح کرتا ہے۔“
اگرچہ رپورٹ کا مرکزی فوکس غزہ ہے، کمیشن نے مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں بگڑتی صورتحال پر بھی روشنی ڈالی، جہاں اسرائیلی فوجی کارروائیوں، طلبہ کو ہراساں کیے جانے، اور آبادکاروں کے تشدد نے فلسطینی تعلیمی نظام کو شدید متاثر کیا ہے۔
پیلائی نے کہا
”غزہ کے بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا گیا ہے۔ ان کے پاس تعلیم کا کوئی ذریعہ نہیں، وہ مسلسل خوف، قحط، ذہنی صدمے، اور غیر انسانی حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔“
”جو بات خاص طور پر تشویشناک ہے وہ تعلیمی اداروں پر ان حملوں کی وسیع پیمانے پر اور منظم نوعیت ہے، جو اب صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ تمام فلسطینی بچوں کو متاثر کر رہی ہے۔“
کمیشن کی رپورٹ 17 جون کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں باضابطہ طور پر پیش کی جائے گی، تاہم اسرائیل نے فروری میں کونسل سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، یہ کہتے ہوئے کہ اس میں ’’نظامی تعصب‘‘ پایا جاتا ہے۔
یہ تازہ رپورٹ مارچ میں شائع ہونے والی ایک سابقہ رپورٹ کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں کمیشن نے اسرائیل پر ’نسل کشی کے اقدامات‘ کا الزام عائد کیا تھا، خاص طور پر تولیدی صحت کے مراکز کی تباہی کے تناظر میں۔ اس رپورٹ پر اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے سخت ردِعمل دیا تھا، اور کونسل کو ”یہود مخالف، کرپٹ، دہشتگردی کی حمایت کرنے والی اور غیر متعلقہ“ قرار دیا تھا۔