ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے عمان میں ہونے والے ایران-امریکہ جوہری مذاکرات کے چوتھے مرحلے سے قبل سعودی عرب اور قطر کا دورہ کیا ہے۔
ان مذاکرات میں یورینیم کی افزودگی، پابندیوں میں نرمی اور ایران کے جوہری پروگرام کا مستقبل زیر بحث ہوگا۔
دوحہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران عراقچی نے کہا:
"اگر مقصد یہ ہے کہ ایران ایٹم بم نہ بنائے تو وہ تو ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں۔ لیکن اگر دوسری جانب سے غیر حقیقی مطالبات ہوں گے، تو مذاکرات میں مشکلات ہوں گی۔”
ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پُرامن ہے اور اس کا مقصد ہتھیار بنانا نہیں۔
ادھر امریکہ کے خصوصی نمائندے اسٹیو وٹکوف نے واضح کیا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ ایران افزودگی کے تمام مراکز بند کرے، سنٹری فیوجز ختم کرے اور تمام افزودہ ایندھن ملک سے باہر بھیجے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے عندیہ دیا ہے کہ ایران کو پر امن توانائی کے لیے افزودہ یورینیم درآمد کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
یہ مذاکرات ابتداء میں روم میں 3 مئی کو طے تھے لیکن "لاجسٹک وجوہات” کی بنا پر مؤخر ہوگئے تھے۔ عمان کے وزیر خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ اب یہ مذاکرات اتوار کو مسقط میں ہوں گے۔
ایران نے 2015 کے جوہری معاہدے کے بعد اپنی سرگرمیاں بڑھا دی تھیں، جس سے مغرب میں یہ خدشات بڑھ گئے کہ ایران ہتھیاروں کے معیار کی افزودگی کی طرف جا رہا ہے، حالانکہ ایران نے اس کی تردید کی ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ انٹرویو میں کہا کہ وہ سفارتی راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں لیکن مکمل یقین دہانی ضروری ہے۔
دوسری جانب عراقچی کا کہنا ہے کہ ان کا سعودی عرب اور قطر کا دورہ مشاورت کے لیے ہے تاکہ خطے کے ممالک کو اعتماد میں لیا جا سکے۔