معروف ارب پتی اور ٹیکنالوجی ٹائیکون ایلون مسک نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ وہ امریکی حکومت میں اپنی خصوصی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ یہ فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ وفاقی اخراجات کے معاملے پر اختلاف کے بعد سامنے آیا ہے۔
مسک نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر لکھا، ’’بطور خصوصی سرکاری ملازم میری مقررہ مدت ختم ہو رہی ہے، میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے غیر ضروری اخراجات کم کرنے کا موقع دیا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی (DOGE) کا مشن وقت کے ساتھ مضبوط ہوتا جائے گا اور حکومتی نظام کا حصہ بنے گا۔‘‘
مسک کا استعفیٰ ٹرمپ کے متنازعہ ’’ون بگ، بیوٹیفل بل ایکٹ‘‘ پر تنقید کے بعد آیا، جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ صحت کے شعبے کو تباہ کر دے گا اور آئندہ دہائی میں قومی خسارے میں چار کھرب ڈالر تک کا اضافہ کرے گا۔
سی بی ایس نیوز کو انٹرویو میں مسک نے کہا، ’’بل بڑا ہو سکتا ہے یا خوبصورت، لیکن دونوں ایک ساتھ مشکل ہیں۔‘‘ وائٹ ہاؤس نے اختلافات کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ اصل بجٹ میں کٹوتیاں صرف الگ بل کے ذریعے ممکن ہیں۔
مسک، جو کبھی ٹرمپ کے سب سے بڑے حامی اور 2024 کی انتخابی مہم کے سب سے بڑے ڈونر تھے، نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ DOGE ’’تمام مسائل کا نشانہ‘‘ بن گیا ہے اور بیوروکریسی کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ بہتری لانا آسان نہیں۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ اگرچہ حکومت کے ہزاروں ملازمین کو نکالا گیا اور کئی شعبے بند کیے گئے، مگر وہ تمام اہداف حاصل نہیں کر سکے۔ اس دوران، ان کی کمپنیوں کو بھی نقصان ہوا، خاص طور پر ٹیسلا کو، جس کے ڈیلرشپس پر مظاہرے اور گاڑیوں کو آگ لگانے کے واقعات پیش آئے۔
اسپیس ایکس میں حالیہ ناکامیوں، جن میں انڈین اوشن میں پروٹوٹائپ اسٹارشپ کا دھماکہ شامل ہے، کے بعد مسک نے کہا کہ وہ اب اپنی کمپنیوں پر توجہ دیں گے اور سیاست میں سرمایہ کاری سے پیچھے ہٹ جائیں گے، حالانکہ وہ پہلے ہی ٹرمپ کی حمایت میں تقریباً 250 ملین ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔