خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ’تعلیمی ایمرجنسی‘ کے اعلان کے باوجود، لوئر دیر کے علاقے رباط ڈھارا کے تانگو منز پرائمری اسکول کی حالت ایک مختلف کہانی بیان کرتی ہے۔ یہاں 700 سے زائد طلبہ داخل ہیں، لیکن صرف چار کمروں کی وجہ سے بیشتر بچوں کو کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے، جب کہ اساتذہ اور بنیادی سہولیات کی بھی شدید کمی ہے۔
سماجی کارکن دایم شاہ نے ہفتہ کے روز اسکول کے دورے کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ طلبہ کے پاس مناسب بیٹھنے کی جگہ، صاف پینے کا پانی اور بیت الخلا تک میسر نہیں۔ انہوں نے کہا، ’’بچے جھلستی دھوپ اور ہڈیوں کو جما دینے والی سردی میں تکلیف اٹھاتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کو خواندہ بنانے کا نعرہ محض کھوکھلا دعویٰ ہے۔‘‘ انہوں نے حکومت سے فوری اقدام یا احتجاج کا سامنا کرنے کا مطالبہ کیا۔
ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر فیاض الدین نے تسلیم کیا کہ اسکول حد سے زیادہ بھر چکا ہے اور پچھلے کچھ برسوں میں کوئی نیا گرانٹ جاری نہیں کیا گیا۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر عنایت اللہ نے تصدیق کی کہ مزید کمروں کی درخواست بھیجی گئی تھی، لیکن فنڈز کی منظوری کا انتظار ہے۔
ایک اور پیشرفت میں، آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن (APCA) نے 10 جون کو اسلام آباد میں بہتر کام کی شرائط کے مطالبے کے لیے دھرنے کا اعلان کیا ہے۔ APCA کے رہنماؤں نے لوئر دیر کا دورہ کر کے مقامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ضلع کے سرکاری ملازمین کی بھی پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر احتجاج میں شرکت متوقع ہے۔