وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں دو کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اسلام آباد میں تعلیمی ایمرجنسی پر منعقدہ قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس صورتحال کو "ناقابل قبول” قرار دیا اور تمام صوبوں اور معاشرے کے ہر طبقے سے فوری اور مشترکہ اقدامات کا مطالبہ کیا۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں 5 سے 16 سال کے تقریباً 40 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے، جو اسے دنیا بھر میں اسکول سے باہر بچوں کی سب سے بڑی آبادی والے ممالک میں شامل کرتا ہے۔ شہباز شریف نے کہا، "ہمیں اسے حقیقی ایمرجنسی سمجھ کر نمٹنا ہوگا۔ اگر ہم نے اب اقدام نہ کیا تو قوم ہر شعبے میں پیچھے رہ جائے گی۔”
حکومت نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے ایک جامع منصوبے کا اعلان کیا ہے جس میں گھر گھر جا کر داخلہ مہم، کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے مالی مراعات، بچوں کی حاضری بڑھانے کے لیے دوپہر کے کھانے کے پروگرام، اساتذہ کی تربیت اور اسکولوں کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اس مہم کے تحت اگلے پانچ سالوں میں تعلیم کا بجٹ جی ڈی پی کے 1.7 فیصد سے بڑھا کر 4 فیصد کرنے کا ہدف بھی رکھا گیا ہے۔
وزیر اعظم نے صوبائی حکومتوں، نجی شعبے اور سول سوسائٹی سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ یہ مہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) اور ملالہ فنڈ سمیت عالمی تنظیموں نے اس مہم کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ملالہ یوسف زئی نے اپنے بیان میں کہا، "ہر بچے کا حق ہے کہ وہ کلاس روم میں تعلیم حاصل کرے۔”
اگرچہ اس اعلان کو وسیع پیمانے پر سراہا گیا ہے، تاہم ماہرینِ تعلیم نے خبردار کیا ہے کہ دیہی اور شہری علاقوں میں فرق، صنفی عدم مساوات، اور اسکولوں کی مالی کمی جیسے بڑے چیلنجز پر قابو پائے بغیر بہتری ممکن نہیں۔ یونیسف کی ایک تحقیق کے مطابق، پاکستان میں 10 سال کی عمر کے 70 فیصد سے زائد بچے سادہ تحریر پڑھنے یا سمجھنے سے قاصر ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے یقین دہانی کرائی کہ وہ اس مہم کی خود نگرانی کریں گے اور صوبائی قیادت کے ساتھ باقاعدہ اجلاس منعقد کریں گے۔ یہ مہم اگلے دو تعلیمی سالوں میں نمایاں بہتری لانے کا ہدف رکھتی ہے، جبکہ ابتدائی پائلٹ پروگرام جولائی سے پسماندہ اضلاع میں شروع کیے جائیں گے۔