پنجاب، جہاں تقریباً 13 کروڑ لوگ آباد ہیں، شدید حد تک سرکاری اسکولوں کی کمی کا شکار ہے۔ ایک نئی رپورٹ کے مطابق صوبے میں صرف 38,000 کے قریب سرکاری اسکول موجود ہیں، جو کہ طلبہ کے زیادہ ڈراپ آؤٹ ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ یہ رپورٹ پاپولیشن کونسل کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔
رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ پنجاب کو آئندہ 15 برسوں میں 19,000 نئے اسکولوں کی ضرورت ہے تاکہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی تعلیمی ضروریات پوری کی جا سکیں، جب کہ اس وقت ایک کروڑ سے زائد بچے (عمر 5 سے 15 سال) اسکولوں سے باہر ہیں۔ رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومتِ پنجاب آئندہ بجٹ میں تعلیم کو اولین ترجیح دے اور اسکولوں کی تعمیر کے لیے خاطر خواہ فنڈز مختص کرے۔
حالانکہ صوبے کے 36 اضلاع میں 21,702 پرائمری، 7,200 مڈل، 8,000 ہائی، اور 800 ہائر سیکنڈری اسکول موجود ہیں، لیکن لاہور میں 2011 کے بعد کوئی نیا سرکاری اسکول تعمیر نہیں کیا گیا۔ نئی شہری ہاؤسنگ اسکیموں میں بھی عوامی اسکولوں کی سہولتیں موجود نہیں ہیں۔
صورتحال کو مزید خراب بناتے ہوئے، حکام اور ماہرین تعلیم نے حکومت کی جانب سے سرکاری اسکولوں کو نجی اداروں کے سپرد (آؤٹ سورس) کرنے کی پالیسی پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام غریب خاندانوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گا، جو مفت تعلیم پر انحصار کرتے ہیں۔
پنجاب ٹیچرز یونین کے سیکریٹری جنرل رانا لیاقت علی نے بین الاقوامی این جی اوز کی توجہ کو خوش آئند قرار دیا، مگر واضح کیا:
"آؤٹ سورسنگ مسئلے کا حل نہیں ہے، حکومت کو ہمارے بچوں کے مستقبل کے لیے خود اقدامات کرنے ہوں گے۔”