پاکستان میں قومی تھنک ٹینکس اور جاب پورٹلز کی جانب سے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں 30 فیصد سے زائد یونیورسٹی گریجویٹس بے روزگار ہیں۔ یہ ایک چونکا دینے والا انکشاف ہے جو اس بڑھتے ہوئے بحران کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ اب اعلیٰ تعلیم معاشی بہتری اور روزگار کی ضمانت نہیں رہی۔
فارغ التحصیل نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح نوجوانوں کی عمومی بے روزگاری کی شرح (جو تقریباً 10 سے 14 فیصد کے درمیان ہے) سے کہیں زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ شعبوں میں انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنس اور زراعت شامل ہیں۔ انجینئرنگ کے گریجویٹس میں بے روزگاری کی شرح 23 فیصد سے زائد ہے جبکہ زراعت کے شعبے میں یہ تقریباً 29 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ خواتین اس بحران کا غیر منصفانہ طور پر شکار ہو رہی ہیں — 30 فیصد سے زیادہ گریجویٹ خواتین بے روزگار ہیں، جو مردوں کی نسبت تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بحران کی ایک بڑی وجہ یونیورسٹیوں کے نصاب اور مارکیٹ کی ضروریات کے درمیان بڑھتا ہوا خلا ہے۔ زیادہ تر ڈگری پروگرامز صرف نظریاتی تعلیم اور رٹے پر مبنی ہوتے ہیں، جس کے باعث فارغ التحصیل نوجوان عملی اور مہارت پر مبنی ملازمتوں کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنانے والے عوامل میں غیر منظم انٹرن شپس، ناقص کیریئر گائیڈنس اور صنعت کے ساتھ کمزور روابط شامل ہیں۔
معاشی سست روی، ملازمتوں کے مواقع کی کمی، اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے لیبر مارکیٹ کو مزید محدود کر دیا ہے۔ زیادہ تر گریجویٹس کو مجبوراً ایسے چھوٹے موٹے یا فری لانس کام کرنے پڑ رہے ہیں جن میں نہ کوئی ملازمت کا تحفظ ہوتا ہے، نہ ہی طویل المدتی کیریئر کا کوئی راستہ۔ یہ صورتحال نوجوان پیشہ ور افراد کو بیرونِ ملک روزگار کی تلاش پر مجبور کر رہی ہے، جس سے "برین ڈرین” یعنی ہنر مند افراد کی بیرونِ ملک منتقلی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اگرچہ ایچ ای سی ویژن 2025 جیسے اصلاحاتی منصوبے اور کئی ہنر مندی بڑھانے کے پروگرامز موجود ہیں، لیکن اب تک ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب تک فوری طور پر ایسی پالیسی تبدیلیاں نہ کی گئیں جو تعلیم اور روزگار کے درمیان فاصلے کو کم کریں، پاکستان ایک ایسی نسل کو جنم دے گا جو بظاہر تعلیم یافتہ ہوگی، مگر معاشی طور پر غیر مستحکم اور بے سمت ہو گی۔