جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا شادی کی عمر کو پہنچیں، تو قریش کے کئی معزز افراد نے رسول خدا ﷺ کے پاس رشتے بھیجے۔ ان میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ جیسے صحابہ بھی شامل تھے، لیکن رسول اللہ ﷺ ہر بار فرماتے کہ وہ اللہ کا حکم چاہتے ہیں اور اس لیے فیصلہ ابھی نہیں کر سکتے۔
حضرت علیؑ کا رشتہ:
حضرت علیؑ شروع سے رسول اللہ ﷺ کے قریب تھے، انہوں نے اسلام کی راہ میں اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔ جب دل میں حضرت فاطمہؑ سے نکاح کی خواہش پیدا ہوئی تو شرماتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے اور درخواست کی۔ حضور اکرم ﷺ نے خوش ہو کر فرمایا کہ اللہ نے پہلے ہی آسمانوں پر ان کا نکاح طے کر دیا ہے۔
آسمانی نکاح کی تقریب:
حضرت جبرائیلؑ نے حضور ﷺ کو بتایا کہ اللہ نے جنت میں فرشتوں کو جمع کیا، حضرت آدمؑ نے خطبہ پڑھا، راحیل فرشتے نے حمد پڑھی، اور سب فرشتوں کے سامنے حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کا عقد کیا۔ یہ واقعہ کئی مشہور اسلامی کتابوں میں بیان ہوا ہے۔
زمینی نکاح کی تیاری:
رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؑ سے ان کی جنگی پوشاک فروخت کروائی، جس کی قیمت سے حضرت فاطمہؑ کا جہیز خریدا گیا۔ جہیز میں دو گدے، چکی، پردے، پانی کے برتن، تکیے، کپڑے وغیرہ شامل تھے — سب سادہ مگر باعزت چیزیں۔
نکاح کی تقریب:
مسجد نبوی میں سب صحابہ کو اکٹھا کیا گیا۔ حضور ﷺ نے نکاح پڑھایا اور 400 مثقال چاندی مہر مقرر کیا۔ سب نے مبارکباد دی اور حضرت علیؑ و حضرت فاطمہؑ نے اللہ کا شکر ادا کیا۔
ولیمہ اور رخصتی:
کچھ دن بعد حضرت علیؑ نے ولیمہ کیا، جس میں مدینہ کے سب لوگ شریک ہوئے۔ کھانے کی برکت یہ تھی کہ سب نے کھایا اور گھروں کے لیے بھی لے گئے، مگر کھانا کم نہ ہوا۔
رخصتی کی رات حضور ﷺ خود حضرت فاطمہؑ کا ہاتھ حضرت علیؑ کے ہاتھ میں دے کر دعا کی:
’’اے علیؑ، فاطمہؑ تمہارے لیے بہترین بیوی ہے، اور فاطمہؑ، علیؑ تمہارے لیے بہترین شوہر ہے۔ اے اللہ! ان دونوں کی زندگی اور نسل میں برکت عطا فرما، اور ان کی حفاظت فرما۔‘‘
اس شادی کی سادگی اور برکت آج بھی مسلم دنیا میں مثال بن کر سامنے آتی ہے۔ یہ نکاح محض ایک رشتہ نہیں، بلکہ اسلام کی اقدار، محبت اور برکت کا مظہر تھا۔
لفظوں میں ڈھل کے آیئہ تطہیر بن گئی
مریم سے بھی بتول کو رُتبہ سِوا ملا
بابا اُسے رسول سا خیرالورا ملا
بیٹا ہر ایک شہید راه کبریا ملا
شوہر ملا تو خُلق کا عُقدہ کشا ملا
ہر ایک اپنے رُتبے میں انتخاب ہے
زہرا ہے بے نظیر، علی لاجواب ہے