معروف اداکار جاوید شیخ اور ان کی بیٹی، اداکارہ مومل شیخ، حال ہی میں گہر رشید کے ٹاک شو رمز میں شامل ہوئے، جہاں انہوں نے طلاق کے خاندانوں پر خاص طور پر بچوں، مردوں اور عورتوں پر پڑنے والے جذباتی اور معاشرتی اثرات کے بارے میں کھل کر گفتگو کی۔
انٹرویو کے دوران، دونوں نے اپنی ذاتی تجربات سے گفتگو کی اور بتایا کہ جاوید شیخ کی سابقہ اہلیہ زینت منگی سے علیحدگی کے بعد ان کے خاندانی تعلقات میں جذباتی کشمکش کیسے بڑھی۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ اگرچہ ان کا پیشہ ورانہ کیریئر مستحکم رہا، لیکن خاندان نے جذباتی مشکلات کا سامنا کیا۔
جاوید شیخ نے بتایا کہ طلاق عورتوں پر زیادہ بوجھ ڈالتی ہے۔ انہوں نے کہا، "مرد کام یا سماجی میل جول میں اپنا دھیان لگا لیتے ہیں، لیکن عورت کو گھر، بچوں اور خاموشی کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے۔” انہوں نے واضح کیا کہ دونوں فریقین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر عورتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ جذباتی اور عملی طور پر زیادہ ذمہ داری سنبھالیں۔
مومل شیخ نے اس موقع پر مردوں کے جذباتی مسائل کی طرف توجہ مبذول کرائی، جو اکثر نظر انداز کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا، "مردوں کے جذبات کو عموماً نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بچے ماں کے پاس ہوتے ہیں جس سے انہیں راحت ملتی ہے، لیکن کم ہی کوئی والد سے پوچھتا ہے کہ وہ بچوں کے بغیر کیسے زندگی گزار رہا ہے۔” مومل نے معاشرتی رویے کی نشاندہی کی جو مردوں کو جذباتی کمزوری ظاہر کرنے سے روکتا ہے۔ "آج کل عورتیں بھی کام کر رہی ہیں، تو پھر مردوں کو بچوں کی پرورش کا برابر موقع کیوں نہیں دیا جاتا؟” انہوں نے سوال اٹھایا۔
دونوں نے اتفاق کیا کہ خاندانی تعلقات کو دوبارہ مضبوط کرنے کے لیے مفاہمت اور باہمی سمجھ بوجھ ضروری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مومل کی شادی کے وقت خاندان دوبارہ متحد ہوا اور جاوید شیخ واپس گھر آئے، جو ماضی کے زخموں کو بھرنے کا موقع بنا۔
جاوید اور مومل شیخ کی اس گفتگو نے جنوبی ایشیائی خاندانوں میں طلاق کے جذباتی اثرات پر اہم بحث چھیڑی ہے۔ ان کے ایماندارانہ تبصرے نے دونوں صنفوں پر طلاق کے اثرات کو واضح کیا اور بتایا کہ بچوں پر اس کا سب سے زیادہ اثر پڑتا ہے۔
یہ انٹرویو پاکستانی میڈیا میں ذہنی صحت، جذباتی آگاہی، اور خاندان میں مرد و خواتین کے بڑھتے ہوئے کردار کے حوالے سے بڑھتی ہوئی گفتگو کا حصہ ہے۔ مشہور شخصیات کی ذاتی کہانیاں عوامی دلچسپی کا باعث بنتی ہیں، اور ایسی بات چیت سے نہ صرف ان کو انسانی سطح پر سمجھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ ایسے موضوعات کو بھی اجاگر کیا جاتا ہے جو عام طور پر نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔