گزشتہ دنوں ایک اہم واقعہ سامنے آیا جب ماحولیات کی عالمی کارکن گریٹا تھنبرگ اور دیگر انسانی حقوق کے علمبرداروں پر مشتمل ایک کشتی، جو غزہ کے محصور عوام کے لیے امداد لے کر جا رہی تھی، اسرائیلی بحریہ نے روکی اور پھر اشدود بندرگاہ لے جائی گئی۔
یہ کشتی ایک انسانی ہمدردی کے مشن پر تھی، جس کا مقصد اسرائیل کے جاری فوجی آپریشن اور غزہ پر سخت پابندیوں کے خلاف پرامن احتجاج کے ساتھ ساتھ، غذائی اجناس اور طبی سامان کی فراہمی تھا۔ تنظیم فریڈم فلوٹیلا کولیشن نے دعویٰ کیا کہ یہ کشتی بین الاقوامی پانیوں میں اسرائیلی افواج کی جانب سے زبردستی قبضے میں لی گئی، جسے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی حکومت نے اس مشن کو "سیلفی مہم” قرار دیا اور کہا کہ اس کشتی پر امداد برائے نام تھی، جبکہ حالیہ دنوں میں اسرائیل کے مطابق ہزاروں ٹرک غزہ میں داخل ہو چکے ہیں۔ تاہم آزاد ذرائع اور اقوام متحدہ کے ماہرین مسلسل یہ خبردار کرتے آ رہے ہیں کہ غزہ کے حالات بدترین انسانی بحران کی جانب بڑھ رہے ہیں، جہاں قحط کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔
گریٹا تھنبرگ اور دیگر 11 کارکنوں کو زیر حراست لے کر طبی معائنہ کروایا گیا اور جلد ملک بدری کے احکامات جاری کیے جائیں گے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ‘عدالہ’ نے ان گرفتاریوں کو ایک خطرناک نظیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ پرامن شہریوں کی اس طرح حراست بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔
یہ واقعہ نہ صرف اسرائیل کی سخت پالیسیوں پر سوالات اٹھاتا ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی جھنجھوڑتا ہے کہ کیا واقعی امداد پہنچانے کی نیت سے نکلنے والے کارکنوں کو جنگی قیدیوں کی طرح گرفتار کرنا ایک مہذب ریاست کو زیب دیتا ہے؟