مئی 2025 ریکارڈ پر دوسرا گرم ترین مہینہ قرار، یورپی ماحولیاتی ادارے کی رپورٹ
یورپی یونین کے ماحولیاتی ادارے "کوپرنیکس کلائمیٹ چینج سروس” (C3S) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، مئی 2025 کو دنیا کا دوسرا گرم ترین مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ اس مہینے کے دوران عالمی اوسط درجہ حرارت 1850–1900 کے قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.4 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا یہ وہ دور ہے جب دنیا میں بڑے پیمانے پر فوسل فیول کا استعمال شروع ہوا تھا۔
مشرق وسطیٰ، مغربی ایشیا، شمال مشرقی روس اور شمالی کینیڈا جیسے خطوں میں سب سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا، جبکہ مغربی انٹارکٹکا میں بھی غیر معمولی گرمی دیکھی گئی۔ پاکستان کے شہر جیکب آباد میں درجہ حرارت تقریباً 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا، جو کہ پچھلے سال جون کی مہلک ہیٹ ویو کی یاد دلاتا ہے جس میں جنوبی پاکستان میں 560 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
اگرچہ مئی میں 22 مہینوں کے بعد پہلی مرتبہ عالمی درجہ حرارت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد سے نیچے آیا، لیکن ماہرین اسے عارضی وقفہ قرار دے رہے ہیں۔ C3S کے ڈائریکٹر کارلو بونٹیمپو کا کہنا ہے، "یہ ایک وقتی سکون ہے،” اور خبردار کیا کہ عالمی حدت میں اضافہ جاری رہنے کا امکان ہے۔
اس شدید گرمی کے اثرات جنوبی ایشیا سے بھی آگے دیکھے گئے۔ گرین لینڈ میں مئی کی گرمی کی لہر کے باعث برفانی چادر معمول سے 17 گنا زیادہ تیزی سے پگھلی، اور قریبی ملک آئس لینڈ نے بھی اسی طرح کے اثرات کا سامنا کیا۔ یہ معلومات "ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن” (WWA) گروپ نے فراہم کیں۔
اس دوران دنیا میں ماحولیاتی اقدامات کا سلسلہ متضاد رہا۔ چین اور یورپی یونین نے کاربن اخراج میں کمی کی اطلاع دی ہے۔ چین نے قابلِ تجدید توانائی میں اضافہ کیا اور کوئلے پر انحصار کم کیا۔ "کاربن بریف” کے مطابق، 2025 کی پہلی سہ ماہی میں چین کے اخراج میں 3 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
یورپی یونین کا ہدف ہے کہ وہ 2030 تک اخراج میں 55 فیصد کمی کرے، جبکہ 1990 کے مقابلے میں اب تک 37 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ یورپی یونین کے ماحولیاتی کمشنر ووپکے ہوئکسترا کے مطابق، "ماحولیاتی اقدامات اور معاشی ترقی ساتھ ساتھ چل سکتی ہیں۔”
دوسری جانب، امریکہ میں فوسل فیول کے استعمال میں اضافہ جاری ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں اور توانائی کی کثرت سے استعمال کرنے والے ٹیکنالوجی شعبوں کی طلب کے باعث امریکہ میں اخراج میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، مصنوعی ذہانت (AI) اور ڈیٹا سینٹرز بجلی کی طلب کو تیزی سے بڑھا رہے ہیں۔
علاقائی سطح پر بھی ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف کوششیں جاری ہیں۔ حال ہی میں کیریبین ممالک کے رہنماؤں نے ساحلی علاقوں میں مینگروو درختوں کی بحالی پر تبادلہ خیال کیا، جو سمندری طوفانوں اور بڑھتے ہوئے پانیوں سے قدرتی دفاع فراہم کرتے ہیں۔
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر فوری اور مربوط اقدامات نہ کیے گئے تو اس قسم کے شدید موسمی واقعات معمول بن سکتے ہیں۔ ماہرِ موسمیات فریڈریکے اوٹو کے مطابق، "ماحولیاتی تبدیلی کے بغیر ایسے انتہاپسندانہ مظاہر ممکن نہ تھے۔ اس کے نتائج پوری دنیا پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔”