فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسرائیل کے انتہا پسند وزیر اتمار بن گویر کے حالیہ دورہ مسجد الاقصیٰ کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک پر "مذہبی جنگ بھڑکانے کی کوشش” قرار دیا ہے۔
بدھ کے روز جاری کردہ بیان میں حماس نے بن گویر، جو اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر بھی ہیں، کے اس دورے کو کھلی اشتعال انگیزی اور مسلمانوں کے جذبات اور مسجد الاقصیٰ کے اسلامی تقدس کی کھلی توہین قرار دیا۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ در اندازی "جان بوجھ کر کیا گیا اشتعال انگیز عمل ہے” جو اسرائیلی حکومت کی انتہا پسندانہ سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا: "یہ بار بار ہونے والی خلاف ورزیاں اسرائیلی حکومت کے تکبر اور مذہبی کشیدگی کو ہوا دینے کے ارادے کی عکاسی کرتی ہیں۔”حماس نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ اسرائیلی آباد کاروں کی مسجد الاقصیٰ میں در اندازی اور ان کے تلمودی رسومات کی ادائیگی میں اضافہ ہو رہا ہے، جو فلسطینیوں کے لیے سخت اشتعال انگیز عمل ہے۔ تنظیم نے مسجد کے اسلامی تشخص کے تحفظ اور اس کی تقسیم یا یہودیت کے کسی بھی منصوبے کی مزاحمت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
حماس نے مسلم اور عرب دنیا کے تمام با ضمیر افراد سے اپیل کی کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسجد الاقصیٰ کی حفاظت کے لیے یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور عملی اقدامات اٹھائیں۔
اسی دن اتمار بن گویر ایک گروہ کے ہمراہ مقبوضہ مشرقی القدس میں واقع مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں داخل ہوئے اور صحن میں مذہبی رسومات ادا کیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بن گویر نے مسجد الاقصیٰ کا دورہ کیا ہو وہ 2022 میں اسرائیلی کابینہ کا حصہ بننے کے بعد کئی بار ایسا کر چکے ہیں۔
اسرائیل اور اردن کے درمیان 1967 میں القدس پر اسرائیلی قبضے کے بعد طے پانے والے معاہدے کے تحت مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں غیر مسلموں کی عبادت پر باضابطہ طور پر پابندی ہے، مگر عملی طور پر اس معاہدے کی خلاف ورزیاں معمول بن چکی ہیں، جن سے فلسطینی عبادت گزاروں کو نقصان پہنچتا ہے۔
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب اسرائیلی فوج غزہ پر اپنی خونریز جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے، جس میں اب تک 55,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔