ایران نے جمعہ کی رات اسرائیلی فضائی حملوں کے جواب میں بیلسٹک میزائلوں کی بارش کر دی، جن میں ایرانی فوجی کمانڈرز اور ایٹمی سائنسدان مارے گئے جبکہ ایک اہم یورینیم افزودگی کا مرکز شدید نقصان کا شکار ہوا۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایک ٹی وی خطاب میں کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: "ہم اس عظیم جرم کو معاف نہیں کریں گے۔ ایران کی مسلح افواج دشمن کو بھاری ضربیں لگائیں گی۔”
اسرائیلی فوج (IDF) کے مطابق، زیادہ تر میزائل فضا میں ہی ناکارہ بنا دیے گئے یا نشانے سے چوک گئے، لیکن کم از کم ایک میزائل تل ابیب کے مرکزی علاقے میں گرا، جہاں ایک بڑا فوجی اڈہ واقع ہے۔ ہنگامی خدمات کے مطابق، حملوں میں کم از کم 40 افراد زخمی ہوئے۔
اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے حملے کو "ریڈ لائن کراس” قرار دیتے ہوئے کہا: "ہم ایران کو اس اقدام کی بھاری قیمت چکائیں گے۔”
مارے گئے اہم کمانڈر، تباہ شدہ عمارتیں
تہران میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں رہائشی عمارتیں منہدم ہو گئیں۔ ایران کے مطابق، 78 افراد ہلاک ہوئے جن میں چار اعلیٰ فوجی جنرل شامل تھے: میجر جنرل حسین سلامی، بریگیڈیئر جنرل عامر علی حاجی زادہ، میجر جنرل محمد باقری اور میجر جنرل غلام علی رشید۔
کارنیگی اینڈاؤمنٹ سے وابستہ ماہر نِکول گراژیووسکی نے کہا، "یہ حملے محدود نوعیت کے نہیں تھے بلکہ براہِ راست رہائشی علاقوں پر ہوئے۔”
سپریم لیڈر کے مشیر علی لاریجانی نے کہا، "جوابی کاروائی کی اب کوئی حد باقی نہیں رہی۔ الٰہی انتقام کا ہاتھ اسرائیل اور اس کے حامیوں کو دبوچ لے گا۔”
علاقائی صورتحال انتہائی کشیدہ
یہ حملے اس وقت ہوئے جب اسرائیل نے چند ماہ قبل ایرانی قونصل خانے اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ پر حملے کیے تھے۔ ایران کے پاس اس وقت محدود عسکری مواقع ہیں کیونکہ حزب اللہ کمزور ہو چکی ہے اور شام میں اثر و رسوخ کم ہو چکا ہے۔
امریکی فوج کی محدود شمولیت
امریکی دفاعی نظام ‘پیٹریاٹ’ اور ‘تھاڈ’ نے اسرائیلی فضائی دفاع میں حصہ لیا، لیکن یہ شمولیت گزشتہ سال کے مقابلے میں محدود رہی۔ امریکی اہلکاروں کو کئی مشرق وسطیٰ کے ممالک سے واپس بلا لیا گیا۔
ایٹمی تنصیبات نشانہ، عالمی برادری میں تشویش
اسرائیل نے نطنز، فردو اور اصفہان میں ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ IAEA کے مطابق، نطنز میں تابکاری پھیلنے کی اطلاعات ہیں۔ ایران اور امریکہ کے درمیان عمان میں اتوار کو جوہری مذاکرات ہونے تھے، جو اب غیر یقینی صورت اختیار کر چکے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ "مشترکہ تباہی” کا خطرہ موجود ہے۔ انہوں نے کہا، "ابھی وقت ہے کہ ایران مذاکرات کی میز پر واپس آئے، اس سے پہلے کہ کچھ باقی نہ بچے۔”
تہران میں لوگ مسلسل دھماکوں اور فضائی حملوں کے خدشے کے باعث ایندھن اور دیگر ضروری سامان جمع کرنے میں مصروف دکھائی دیے۔