بولی وڈ سپر اسٹار عامر خان نے حال ہی میں ایک دل کو چھو لینے والا بیان دیا ہے جو مذہبی اور قومی سرحدوں کے پار لوگوں کے دلوں کو چھو گیا ہے۔ انہوں نے کہا،
“میں مسلمان ہوں اور مجھے فخر ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ میں ہندوستانی ہوں اور مجھے فخر ہے کہ میں ہندوستانی ہوں۔ یہ دونوں باتیں اپنی جگہ درست ہیں۔ کوئی مذہب یہ نہیں کہتا کہ کسی کو مارو۔” یہ الفاظ اتحاد، توازن، اور ہمدردی کا پیغام دیتے ہیں خاص طور پر ایسے وقت میں جب مذہبی اور ثقافتی تقسیم عوامی گفتگو میں غالب ہوتی ہے۔
یہ بیان جو سوشل میڈیا پر بار بار گردش کرتا رہتا ہے، مستند ہے اور مختلف معتبر انٹرویوز اور ٹاک شوز میں عامر خان کے ان الفاظ کا حوالہ دیا گیا ہے جہاں انہوں نے شناخت، حب الوطنی، اور مذہب کے کردار پر بات کی ہے جو کسی کے اقدار کو تشکیل دیتا ہے۔ یہ ان کا مستقل موقف ظاہر کرتا ہےکہ مذہبی شناخت اور قومی فخر امن اور باہمی احترام کے ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔
عامر کا پیغام مختلف پس منظر کے لوگوں کو متاثر کرتا ہے کیونکہ یہ ایک عالمی سچائی کو بیان کرتا ہے: کوئی بھی مذہب نفرت یا تشدد کی تعلیم نہیں دیتا۔ ایک متنوع ملک جیسے بھارت میں، بااثر آوازوں کی جانب سے ایسی یاد دہانیاں ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ ان کا یہ موقف سیاسی نہیں بلکہ ذاتی فخر اور انسانیت کی نمائندگی کرتا ہے جو ان کے اسلامی ایمان اور ہندوستانی شناخت دونوں میں جڑا ہوا ہے۔
اس لمحے کی سب سے بڑی خوبی ہے عامر کی پُر سکون اور مخلصانہ گفتگو نہ دفاعی، نہ جارحانہ، بلکہ گہرے خلوص کے ساتھ۔ ایسے وقت میں جب عام شخص حساس موضوعات سے اجتناب کرتا ہے، ان کا کھل کر بولنا الفاظ کو وزن دیتا ہے۔ انہوں نے نہ اپنے ایمان کو نظر انداز کیا نہ اپنی قومی شناخت کو کم کیا — بلکہ دونوں کا برابری کے ساتھ جشن منایا۔
عامر خان کے الفاظ ایک نرم مگر مضبوط یاد دہانی ہیں کہ ہم آہنگی نہ صرف ممکن ہے بلکہ ضروری بھی ہے۔ ایمان اور قومیت کو مقابلہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں، جب تک کہ احترام، امن، اور محبت رہنما اصول ہوں۔ ایک ایسی دنیا میں جو لیبلز میں منقسم ہے، ان کی آواز ایک بہت ضروری سچائی کی بازگشت ہے: انسانیت نفرت سے بالاتر ہونی چاہیے۔