اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں 22 نئی یہودی بستیوں کی منظوری دے دی ہے، جو کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر قبضے کو مزید مستحکم کرنے کی ایک خطرناک اور اشتعال انگیز کوشش سمجھی جا رہی ہے۔
یہ اعلان اسرائیلی وزیردفاع اسرائیل کاٹز اور انتہائی قوم پرست وزیر خزانہ بیتزیلیل سموٹریچ نے کیا، جو مقبوضہ مغربی کنارے میں بستیوں کی منصوبہ بندی پر براہ راست کنٹرول رکھتے ہیں۔ انہوں نے ان بستیوں کو "یہودی ریاست کے مستقبل کا فیصلہ” قرار دیا، جبکہ حقیقت میں یہ فیصلہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں کھلی رکاوٹ بھی ہے۔
ان 22 میں سے کئی بستیوں کا پہلے سے ہی غیرقانونی طور پر قیام ہو چکا ہے، مگر اب انہیں اسرائیلی قانون کے تحت قانونی درجہ دیا جا رہا ہے۔ دیگر بستیاں مکمل طور پر نئی ہیں، جن میں جبل عیبال (نابلس کے قریب) اور بیت حورون نارتھ (رام اللہ کے مغرب میں) شامل ہیں، جہاں تعمیراتی سرگرمیاں پہلے ہی شروع ہو چکی ہیں۔
اسرائیلی تنظیم "پیس ناو” نے اس قدم کو گزشتہ 30 برسوں میں بستیوں کی سب سے بڑی توسیع قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ "یہ مغربی کنارے کی ساخت کو ناقابلِ واپسی طور پر بدل دے گا اور قبضے کو مزید گہرا کر دے گا۔”
فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نے اسے "خطرناک اشتعال انگیزی” قرار دیا اور کہا کہ "یہ انتہا پسند اسرائیلی حکومت کسی بھی قیمت پر آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنا چاہتی ہے۔”
مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں پہلے ہی 160 سے زائد یہودی بستیاں موجود ہیں، جن میں تقریباً 700,000 اسرائیلی آباد ہیں، جب کہ ان کے ساتھ 3.3 ملین فلسطینی بنیادی سہولیات اور آزادی سے محروم زندگی گزار رہے ہیں۔
اردن، برطانیہ، اور دیگر ممالک نے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے، جب کہ اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے پہلے ہی اسرائیلی بستیوں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو "تمام آبادکاروں کو نکالنا چاہیے۔”
تاہم اسرائیلی وزیر سموٹریچ نے ان تمام تنقیدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا: "یہ ایک تاریخی موقع ہے… اب اگلا قدم خودمختاری ہے۔”