جرمن واچ کی جاری کردہ کلائمٹ رسک انڈیکس 2025 رپورٹ کے مطابق، پاکستان 2022 میں دنیا کا سب سے زیادہ ماحولیاتی آفات سے متاثرہ ملک رہا۔ تباہ کن سیلابوں نے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کیا، جبکہ 81 لاکھ افراد بے گھر ہوئے اور 22 لاکھ سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2022 میں قدرتی آفات کے باعث اندرونِ ملک نقل مکانی کرنے والے افراد کی سب سے بڑی تعداد پاکستان میں دیکھی گئی۔ شدید سیلابوں نے 1,700 سے زائد افراد کی جان لی اور ملک کو تقریباً 15 ارب ڈالر کا معاشی نقصان پہنچایا۔ سیلابوں نے ملک کے 10 فیصد رقبے کو ڈوبا دیا، جس کے بعد قومی سطح پر ایمرجنسی نافذ کی گئی۔
ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی نے ان آفات کی شدت میں مرکزی کردار ادا کیا۔ رپورٹ کے مطابق مون سون بارشوں میں 50 فیصد اضافہ اور مارچ تا مئی 2022 کی شدید گرمی کی لہر کو 30 گنا زیادہ ممکن بنایا گیا۔ گرمی کی اس لہر کے دوران نوابشاہ میں درجہ حرارت 49.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا، جس سے فصلوں، پانی کے ذخائر اور انسانی صحت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
رپورٹ میں خاص طور پر اس بات پر زور دیا گیا کہ سیلابوں سے سب سے زیادہ نقصان خواتین اور غریب طبقے کو ہوا۔ زرعی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کی روزی روٹی ختم ہو گئی اور مہاجر کیمپوں میں صنفی تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا، خاص طور پر بچے اور خواتین اس سے شدید متاثر ہوئے۔
اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے اس صورتحال کو ماحولیاتی انصاف کا مسئلہ قرار دیا ہے کیونکہ پاکستان کا عالمی گرین ہاؤس گیسوں میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن وہ ان کے بدترین اثرات کا سامنا کر رہا ہے۔
رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے فوری ماحولیاتی مالی امداد ناگزیر ہے تاکہ وہ بحالی، موافقت اور مستقبل کی تیاری کر سکیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر دنیا نے ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات میں تاخیر کی تو ایسے خطرناک موسمی سانحات دنیا بھر میں "نیا معمول” بن جائیں گے۔