وزیرِاعظم شہباز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کرنے پر سراہا ہے اور کہا ہے کہ امریکہ کو دونوں ممالک کے درمیان جامع مذاکرات کے لیے بھی کردار ادا کرنا چاہیے۔
امریکی یومِ آزادی کے موقع پر اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ حالیہ چار روزہ کشیدگی کی وجہ ‘پہلگام واقعہ’ تھا، جو ایک ‘جھوٹا حملہ’ ثابت ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی ممکن بنانے میں صدر ٹرمپ کا کردار قابلِ تحسین ہے۔
“صدر ٹرمپ امن کے داعی ہیں اور انہوں نے ثابت کیا کہ وہ سرد اور گرم جنگ دونوں کے خلاف ہیں۔”
وزیر اعظم کے مطابق بھارت کے حملے میں 33 پاکستانی شہری جاں بحق ہوئے، جس کے بعد پاکستان نے چھ بھارتی طیارے مار گرائے۔
“ہم نے تحمل کا مظاہرہ کیا، اور غیرجانبدار بین الاقوامی تحقیقات کی پیشکش کی، لیکن بھارت نے جواب میں جارحیت دکھائی۔”
انہوں نے امریکی عوام کو یومِ آزادی کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ پاک-امریکہ تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔
بلاول: امن کیلئے امریکہ کا کردار اہم
واشنگٹن میں پاکستانی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ٹرمپ نے دس بار اس بات کا کریڈٹ لیا ہے کہ انہوں نے پاک-بھارت جنگ بندی میں کردار ادا کیا، اور انہیں یہ کریڈٹ ملنا بھی چاہیے۔
“اب وقت ہے کہ امریکہ صرف جنگ بندی ہی نہیں، بلکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جامع مذاکرات کے لیے بھی سہولت کار بنے۔”
انہوں نے بھارت کو علاقائی سیکیورٹی فراہم کرنے والا ملک بنانے کی امریکی حکمتِ عملی کو ناکام قرار دیا۔
“جو ملک اپنے ہی طیارے نہیں بچا سکا، وہ دوسروں کی سیکیورٹی کیسے کرے گا؟ یہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ اب اصل امن بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات سے آئے گا، ہتھیاروں سے نہیں۔”
اسحاق ڈار: ہم بات چیت کیلئے تیار ہیں، لیکن مجبور نہیں
ادھر وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان کسی بھی وقت مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن بھارت کی سیاسی بیان بازی کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
“اگر بھارت بات چیت چاہتا ہے تو ہمیں ہمیشہ تیار پائے گا، مگر ہم مجبور نہیں۔ عزت، خودمختاری اور سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔”
انہوں نے بھارتی وزیراعظم مودی کے اس بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ تو صرف “ٹریلر” تھا۔
“ہم امن چاہتے ہیں اور اپنی معیشت پر توجہ دے رہے ہیں، مگر یکطرفہ ایجنڈے پر مذاکرات ممکن نہیں۔ تمام مسائل پر بات ہونی چاہیے، چاہے وہ دہشتگردی ہو یا پانی کا مسئلہ یا کشمیر۔”