اسلام آباد میں جمعرات کے روز پانی کے تحفظ سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم شہباز شریف نے بھارت کی مبینہ آبی جارحیت کے خلاف بھرپور ردعمل کا اعلان کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے پانی کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا اور اس حوالے سے بین الاقوامی سفارتی محاذ، قانونی راستوں اور قومی یکجہتی کے ساتھ بھارت کے اقدامات کا مقابلہ کرے گا۔
وزیرِاعظم نے واضح کیا کہ "ہم تصادم نہیں چاہتے، لیکن جب بات پاکستان کے پانی کے حق کی ہو تو کسی ناانصافی کو برداشت نہیں کریں گے۔” اُنہوں نے سندھ طاس معاہدے کو خطے کے استحکام کے لیے ایک اہم بین الاقوامی معاہدہ قرار دیا اور خبردار کیا کہ بھارت کی جانب سے کسی بھی یکطرفہ اقدام کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
یہ بیان اُس وقت سامنے آیا ہے جب بھارت نے جموں و کشمیر میں کشن گنگا اور رتلے جیسے پن بجلی منصوبے تعمیر کیے ہیں، جن پر پاکستان کو شدید تحفظات ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق یہ منصوبے 1960 میں عالمی بینک کی نگرانی میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔
شہباز شریف نے عندیہ دیا کہ اگر ضرورت پڑی تو پاکستان اقوامِ متحدہ اور عالمی عدالتِ انصاف جیسے بین الاقوامی فورمز سے بھی رجوع کرے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ "ہم پرامن بقائے باہمی پر یقین رکھتے ہیں، مگر اپنے وسائل کی قیمت پر نہیں۔”
اجلاس میں شریک ماہرینِ آب نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے خبردار کیا کہ دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں نمایاں کمی واقع ہو رہی ہے اور ذخائر کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے، جس کی ایک بڑی وجہ بھارت کی جانب سے دریاؤں پر بننے والے ڈیمز ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پاکستان میں زراعت اور توانائی کے شعبے شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) کا کنٹرول بھارت کے پاس ہے جبکہ تین مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ معاہدہ اب تک متعدد جنگوں اور کشیدگیوں کے باوجود برقرار رہا ہے، مگر حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کی جانب سے اس کی خلاف ورزی کے الزامات میں اضافہ ہوا ہے۔
وزیرِاعظم نے اختتام پر تمام صوبوں اور قومی اداروں سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے پر متحد ہو کر ایک آواز میں بات کریں۔ اُنہوں نے کہا، "یہ صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ ہماری بقا، ہمارے کسانوں اور آنے والی نسلوں کا سوال ہے۔”
حکومتِ پاکستان اس وقت ایک تفصیلی قانونی دستاویز تیار کر رہی ہے اور عالمی بینک سے معاہدے پر عمل درآمد اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے دوبارہ مداخلت کی درخواست بھی زیرِ غور ہے۔