امریکی محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی (DHS) نے ہارورڈ یونیورسٹی کا غیر ملکی طلبہ کو داخلہ دینے کا اختیار فوری طور پر معطل کر دیا ہے، جس سے یونیورسٹی کی 27 فیصد سے زائد طلبہ آبادی متاثر ہوگی۔
یہ فیصلہ جمعرات کو DHS کی سیکریٹری کرسٹی نوم کی جانب سے جاری کردہ ایک خط میں سنایا گیا، جس میں ہارورڈ پر وفاقی داخلہ اور بھرتی قوانین کی خلاف ورزی، یہودی طلبہ کے لیے “معاندانہ ماحول” پیدا کرنے اور امتیازی تنوع پالیسیوں کو اپنانے کا الزام لگایا گیا۔
یہ امریکی تاریخ میں کسی بڑے تعلیمی ادارے کے خلاف سب سے سخت کارروائیوں میں شمار کی جا رہی ہے اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اعلیٰ تعلیم میں سیاسی یا نظریاتی شدت پسندی کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی نے تاحال کوئی سرکاری جواب جاری نہیں کیا۔ ماہرین کے مطابق اس فیصلے سے یونیورسٹی کا تعلیمی و ثقافتی ماحول شدید متاثر ہو سکتا ہے اور عالمی سطح پر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
یہ تنازعہ امریکہ بھر میں کیمپس کی آزاد تقریر، تنوع کی پالیسیوں اور بین الاقوامی طلبہ کے کردار پر جاری وسیع مباحثے کا حصہ ہے۔ ٹرمپ، جو آئیوی لیگ اداروں کے شدید ناقد رہے ہیں، پہلے ہی ہارورڈ پر “جاگے ہوئے” نظریات پھیلانے اور یہودی طلبہ کی حفاظت میں ناکامی کا الزام عائد کر چکے ہیں، اور وفاقی نگرانی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ غیر ملکی طلبہ کو داخلہ دینے کے لیے ضروری SEVIS سرٹیفیکیشن DHS کے تحت جاری کیا جاتا ہے، جو اسٹوڈنٹ ویزے کے لیے لازمی شرط ہے۔