کراچی کے بڑے سرکاری اسپتالوں میں بستروں کی شدید قلت کے باعث انفیکشن کنٹرول کے عالمی اصول بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ سول اسپتال کراچی اور قومی ادارہ برائے صحتِ اطفال (این آئی سی ایچ) کی ایمرجنسی وارڈز میں صورتحال اتنی سنگین ہو چکی ہے کہ ایک ہی بستر پر دو، بلکہ بعض اوقات تین سے چار مریضوں کو لٹانا معمول بن چکا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سمیت بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ہر مریض کے لیے علیحدہ بستر اور مناسب فاصلہ ضروری ہے تاکہ جراثیم ایک سے دوسرے مریض تک منتقل نہ ہوں۔ تاہم کراچی کے بڑے سرکاری اسپتال ان اصولوں پر عمل کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
اسپتال ذرائع کے مطابق، اکثر مریض ایسے ہوتے ہیں جنہیں جناح یا انڈس اسپتال سے تشویشناک حالت میں ریفر کیا جاتا ہے۔ جب ان مریضوں کو داخلہ دینے سے انکار کیا جاتا ہے تو وہ اسپتال کے باہر بیٹھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ڈاکٹروں اور عملے کے پاس مریضوں کو ایمرجنسی وارڈ کے محدود بستروں پر ایڈجسٹ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
سول اسپتال کراچی میں ایمرجنسی کی رجسٹریشن ڈیسک کے ساتھ ہی اضافی بستر لگا دیے گئے ہیں، جہاں مرد و خواتین مریض ایک ساتھ لیٹے نظر آتے ہیں۔ شدید رش کے باعث ڈاکٹرز کو علاج کے دوران سخت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، جبکہ نازک حالت میں آئے مریضوں کو پُرسکون اور محفوظ ماحول فراہم کرنا ممکن نہیں رہتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف علاج کے دوران ہی نہیں بلکہ انفیکشن کی منتقلی کے خطرے کے باعث ایک مریض کی بیماری دوسرے تک پہنچ سکتی ہے، جس سے پیچیدگیاں بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
اسپتال انتظامیہ نے اس مسئلے کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں انہیں بڑی بیماری سے بچانے کے لیے معمولی خطرات مول لینا پڑتے ہیں۔ تاہم ماہرین اور عملے نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی کے بڑے سرکاری اسپتالوں کی ایمرجنسی وارڈز کو فوری طور پر توسیع دی جائے اور بستروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ انفیکشن کنٹرول کے مؤثر اقدامات ممکن ہو سکیں۔