برین ٹیومر ایک ایسا مرض ہے جو زندگی کے کسی بھی حصے میں کسی کو بھی لاحق ہو سکتا ہے — چاہے وہ نوزائیدہ بچے ہوں یا ضعیف العمر بزرگ۔ اگرچہ ہر برین ٹیومر کینسر نہیں ہوتا، مگر ماہرین کے مطابق بہت چھوٹے بچوں اور بڑی عمر کے افراد میں برین ٹیومر کے کینسر میں تبدیل ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
فورٹس اسپتال نوئیڈا کے نیورو اور اسپائن سرجری کے سربراہ ڈاکٹر راہول گپتا کے مطابق برین ٹیومر کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے اور بچے بھی اس سے محفوظ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بچوں میں برین ٹیومر زیادہ تر دماغ کے اندرونی حصوں میں بنتا ہے، جو اسے زیادہ خطرناک بنا دیتا ہے اور کینسر ہونے کا امکان بڑھا دیتا ہے۔
بچوں میں برین ٹیومر کی ابتدائی علامات
بچوں میں برین ٹیومر کی ابتدائی علامات میں بار بار سردرد ہونا، قے آنا، سر کا سائز غیر معمولی طور پر بڑھ جانا اور دورے پڑنا شامل ہیں۔ نوزائیدہ بچوں میں برین ٹیومر دماغ میں پانی کے بہاؤ کو متاثر کر کے ہائیڈرو سیفالس (Hydrocephalus) جیسی حالت پیدا کر سکتا ہے، جس سے سر بہت بڑا ہو جاتا ہے۔
بڑے بچوں میں اس مرض کی علامات میں چڑچڑاپن، بھوک کی کمی، وزن میں تیزی سے کمی اور نظر کے مسائل شامل ہو سکتے ہیں۔ بعض بچوں کو دھندلا یا دوہرا دکھائی دیتا ہے، جبکہ کچھ بچوں کی آنکھیں نیچے کی طرف جھکی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، جسے "سن سیٹنگ سائن” کہا جاتا ہے۔
دیگر علامات میں ہاتھ یا پاؤں کی کمزوری، چہرے کا ایک طرف جھک جانا، اور جسم کی حرکات میں سختی شامل ہو سکتی ہیں۔ یہ سب علامات دماغ میں دباؤ بڑھنے کی نشاندہی کرتی ہیں۔
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر برین ٹیومر کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ علامات شدت اختیار کر سکتی ہیں، جو بچے کوما میں لے جا سکتی ہیں یا جان کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی جسمانی، ذہنی اور رویوں میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھیں، اور کسی بھی غیر معمولی علامت کی صورت میں فوری طور پر نیورولوجسٹ سے رجوع کریں۔