ایک تازہ تحقیق کے مطابق اگر ہر سال باقاعدگی سے خون کا ٹیسٹ کیا جائے تو یہ کینسر کی ابتدائی تشخیص میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے اور تقریباً نصف مریضوں کو مرض کی اگلی اسٹیج میں داخل ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
ماہرین اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا سادہ خون کے ٹیسٹ علامات ظاہر ہونے سے پہلے ہی کینسر کا پتہ لگا سکتے ہیں اور کیا اس طریقے سے مریضوں کی زندگی بچانے کی شرح میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس (NHS) اس وقت مختلف تجرباتی ٹیسٹ کر رہی ہے، جن میں "گیلیری” اور "miONCO-Dx” شامل ہیں۔
حالیہ طور پر جرنل BMJ Open میں شائع ہونے والی تحقیق میں ماہرین نے تجویز دی ہے کہ سالانہ یا دو سالہ بنیاد پر کی جانے والی اسکریننگ سے نہ صرف مرض جلد شناخت ہو سکتا ہے بلکہ یہ کینسر کو اُس مرحلے میں داخل ہونے سے بھی روک سکتی ہے جہاں علاج بے اثر ہو جاتے ہیں۔
تحقیق میں تیزی سے پھیلنے والے اور جارحانہ رویہ رکھنے والے ٹیومرز پر توجہ دی گئی، جو ابتدائی مرحلے پر محدود مدت تک رہتے ہیں۔
مطالعے میں مختلف اقسام کے کینسر جیسے مثانے، چھاتی، سروائیکل، آنتوں، گردے، جگر، بائل ڈکٹ، پھیپھڑے، اووری، لبلبے، پروسٹیٹ، جلد اور خون کے کینسر کا جائزہ لیا گیا۔
نتائج سے ظاہر ہوا کہ خون کے ذریعے کی جانے والی عالمی سطح کی اسکریننگ عام تشخیصی طریقوں کے مقابلے میں زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔