قبائلی ضلع مہمند میں ۲۴ سرکاری گرلز اسکولز بند کر دیے گئے ہیں، جن کی بنیادی وجہ تدریسی عملے کی شدید کمی اور محکمہ تعلیم میں مبینہ کرپشن بتائی جا رہی ہے۔ مقامی ویلیج کونسل چیئرمینوں کی کمیٹی نے اس معاملے پر سخت ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے ضلعی تعلیمی افسر (خواتین) پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور بدانتظامی کے سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔
پریس کلب مہمند میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے حاجی نقاب شاہ، ڈاکٹر مجید، اکبر خان، شعیب، حسن سردار، ملک اسفندیار، مستمل شاہ، مولانا حکمت شاہ اور قاری ساجد نے کہا کہ تقریباً ۷۰ خواتین اساتذہ کو سیاسی اور ذاتی تعلقات کی بنیاد پر ضلع بدر کر کے دیگر علاقوں میں تعینات کر دیا گیا، جس کے باعث درجنوں اسکولز بغیر کسی تدریسی عملے کے بند ہو چکے ہیں۔
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ دو خواتین اساتذہ گزشتہ آٹھ سال سے غیر حاضر ہیں اور بیرون ملک مقیم ہیں، لیکن اس کے باوجود مارچ ۲۰۲۵ تک انہیں تنخواہیں باقاعدگی سے ادا کی جا رہی ہیں۔
رہنماؤں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ضلعی تعلیمی افسر نے درجہ چہارم کے ۲۱ ملازمین کو جبری ریٹائر کیا، جن میں سے آٹھ کو مبینہ رشوت کے عوض دوبارہ بحال کیا گیا۔ ان کے مطابق مذکورہ افسر تحصیل کونسل کے اجلاسوں میں شرکت سے بھی گریزاں ہے اور تعلیم کے مسائل پر کسی نمائندے کو بھیجنے سے انکار کر چکی ہے۔
تحصیل انبار میں حالات انتہائی سنگین ہیں، جہاں ۸۷ ہزار سے زائد آبادی کے لیے بنائے گئے تین نئے گرلز پرائمری اسکولز میں سے دو مکمل طور پر بند ہیں، جبکہ ایک اسکول میں صرف ایک استاد تعینات ہے۔ بعض اسکولز میں اساتذہ کی تعداد طلبہ سے زیادہ ہے، جبکہ کئی اسکولز مکمل طور پر ویران پڑے ہیں۔
مقامی نمائندوں نے الزام لگایا کہ محکمہ تعلیم کے افسران مانٹیرنگ اتھارٹی کے دوروں سے قبل اساتذہ کو آگاہ کر دیتے ہیں، جس سے جعلی حاضریاں لگائی جاتی ہیں اور اصل صورتحال چھپائی جاتی ہے۔
رہنماؤں نے متنبہ کیا کہ اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے اور ذمہ داروں کو سزا نہ دی گئی تو ضلع بھر میں شدید احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی۔
یہ بندشیں نہ صرف مہمند میں بچیوں کی تعلیم کو شدید دھچکا دے رہی ہیں بلکہ اس سے قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے پہلے سے موجود بحران کو بھی مزید سنگین کر دیا ہے۔ ایک بین الاقوامی تحقیق میں پہلے ہی اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ خیبرپختونخوا کے دور دراز علاقوں میں خواتین اساتذہ کی کمی، نصابی مسائل اور انتظامی بدعنوانیاں لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں