پاکستان میں مہلک ہیٹ ویوز، تباہ کن سیلاب اور پگھلتے گلیشیئر لاکھوں جانوں اور روزگار کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ پاکستان کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ ماحولیاتی طور پر غیر محفوظ ممالک میں ہوتا ہے، حالانکہ اس کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ 1 فیصد سے بھی کم ہے۔
وزارتِ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی ہم آہنگی کے ترجمان سلیم شیخ کہتے ہیں، "ہم بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، لیکن ہم مایوسی کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔”
2022 میں غیر معمولی مون سون بارشوں اور گلیشیئر پگھلنے سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب آ گیا، جس میں 1,760 افراد ہلاک، 3 کروڑ 30 لاکھ بے گھر اور 20 لاکھ مکانات تباہ ہوئے، جس سے 40 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔ جون 2024 میں جنوبی پاکستان میں درجہ حرارت 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا، جس سے 568 افراد ہلاک اور تقریباً 8,000 اسپتال پہنچے جب کہ بجلی کی بندش نے کولنگ سسٹمز کو مفلوج کر دیا۔
شیخ کہتے ہیں، "یہ صرف اعدادوشمار نہیں — یہ انسانی مصیبتوں کی کہانیاں ہیں۔”
پاکستان کے شمالی علاقوں میں 7,000 سے زائد گلیشیئر پیچھے ہٹ رہے ہیں، جس سے دریائے سندھ پر انحصار کرنے والے 90 فیصد عوام کی آبی سلامتی خطرے میں ہے۔ لیکن پاکستان پیچھے نہیں ہٹ رہا۔ حکومت نے 3.5 ارب درخت لگائے، 13.6 لاکھ ہیکٹر زمین بحال کی، اور 84,000 سبز روزگار پیدا کیے — جو پاکستان کی موسمیاتی تباہی کے خلاف سبز دیوار ہے۔
اقوام متحدہ کے اشتراک سے 50 کروڑ ڈالر کا ’لیونگ انڈس انیشی ایٹو‘ دریائے سندھ کے طاس کو زندہ کرنے، دلدلی علاقوں کی بحالی، پائیدار زراعت، اور سیلابی انتظام کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ حکومت قابلِ تجدید توانائی اور 2030 تک الیکٹرک گاڑیوں کی وسیع تر اپنانے پر بھی سرمایہ لگا رہی ہے تاکہ اخراج میں کمی کی جا سکے۔
پاکستان نے پیرس معاہدے کے تحت 2030 تک 50 فیصد کاربن کمی کا وعدہ کیا ہے، لیکن اس میں سے 35 فیصد کا انحصار بین الاقوامی مالی معاونت پر ہے۔ شیخ وضاحت کرتے ہیں، "ہم اپنی طرف سے 15 فیصد کمی کر رہے ہیں، لیکن موسمیاتی انصاف کا تقاضا ہے کہ امیر ممالک آگے آئیں — ہمیں قرض نہیں، امداد چاہیے تاکہ قرض کے جال میں نہ پھنسیں۔”
دسمبر 2024 میں پاکستان نے کاربن مارکیٹ پالیسی متعارف کروائی تاکہ سبز سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے، اور 7.7 کروڑ ڈالر کا ’ری چارج پاکستان‘ منصوبہ شروع کیا جس کا مقصد پانی کی سلامتی مضبوط کرنا اور دلدلی علاقوں کی بحالی ہے۔
زمینی سطح پر، ’کلین گرین اسکول پروگرام‘ اسلام آباد کے 423 اسکولوں میں فعال ہے، جو بچوں کو موسمیاتی شعور، فضلہ انتظام اور درخت لگانے کی تعلیم دے رہا ہے۔ شیخ کہتے ہیں، "یہ طلبہ موسمیاتی سفیر بن رہے ہیں۔”
لیکن چیلنجز بہت بڑے ہیں۔ پاکستان کو 2030 تک اپنے موسمیاتی اہداف کے لیے 348 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، لیکن اب تک صرف 10 فیصد سے کم وعدے کیے گئے ہیں۔ شیخ خبردار کرتے ہیں، "COP28 کے وعدے حقیقی مالی مدد میں بدلنے چاہئیں، تاخیر کا مطلب ہے غیر محفوظ ممالک کا انکار۔”
ماہرین جیسے سردار خان زمری اسلام آباد میں سالانہ 3.5 فٹ کم ہوتے زیرِ زمین پانی کی سطح پر تشویش ظاہر کرتے ہیں، جبکہ ڈاکٹر سیدہ ماریہ علی کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں شہری گرمی کے جزیرے کے اثر کی نشاندہی کرتی ہیں جہاں درجہ حرارت دیہی علاقوں سے 5–7 ڈگری زیادہ ہے۔ ڈاکٹر سویرا صفیر ہیٹ اسٹروک، ڈینگی، اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں جیسے صحت عامہ کے بڑھتے ہوئے خطرات سے خبردار کرتی ہیں۔
آگے دیکھتے ہوئے، پاکستان 2025 تک کلین گرین اسکول پروگرام کو 30,000 اسکولوں تک وسعت دینے، 2026 تک لیونگ انڈس منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل کرنے، اور 2030 تک اپنے قابلِ تجدید توانائی کے اہداف حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
پاکستان کی جدوجہد دنیا کے لیے ایک وارننگ ہے: اگر کم اخراج والا ملک اربوں درخت لگا کر اور قابلِ تجدید توانائی میں سرمایہ لگا سکتا ہے، تو بڑے آلودگی پھیلانے والے ممالک کو اور تیزی سے عمل کرنا ہو گا۔ دنیا کو اپنے وعدے پورے کرنے ہوں گے تاکہ ترقی پذیر ممالک کو اس ماحولیاتی بحران کی قیمت نہ چکانی پڑے جسے صنعتی ممالک نے پیدا کیا۔