کینیڈا اور بھارت کے تعلقات میں شدید کشیدگی کے باوجود، کینیڈین وزیر اعظم مارک کارنی نے بھارتی وزیر اعظم نریندر موڈی کو رواں ماہ البرٹا میں ہونے والے G7 اجلاس میں شرکت کی دعوت دے دی — اور وہ بھی آخری لمحات میں۔
یہ دعوت ایسے وقت میں دی گئی جب دونوں ممالک گزشتہ سال ایک سکھ کینیڈین کارکن ہردیپ سنگھ نجر کے قتل پر ایک دوسرے کے اعلیٰ سفارت کاروں کو ملک بدر کر چکے ہیں، اور بھارت پر الزام ہے کہ وہ کینیڈین شہریوں کے خلاف خفیہ کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔
موڈی کو بلانے پر سکھ کمیونٹی ناراض
ورلڈ سکھ آرگنائزیشن آف کینیڈا نے اس دعوت کو "کینیڈین اقدار سے غداری” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اجلاس کی تاریخ نجر کے قتل کی برسی کے ساتھ متصادم ہے۔
تنظیم کے قانونی مشیر بلپریت سنگھ نے کہا:
"ہمیں یہ اقدام ناقابلِ قبول اور چونکا دینے والا لگا۔ یہ وزیر اعظم ٹروڈو کے اصولی موقف سے مکمل انحراف ہے۔”
’صرف ضرورت کے وقت یاد آتے ہیں‘
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ G7 اجلاس میں بھارت کو آخری لمحے پر دعوت دی گئی — بظاہر صرف اس لیے کہ بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے اور گلوبل سپلائی چینز میں ایک مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔
وزیر اعظم کارنی نے جمعے کو موڈی سے فون پر بات کی اور دعوت دی، جسے بھارتی وزیراعظم نے فوراً قبول کر لیا۔
"ضروری معاملات پر بھارت کی شمولیت لازمی ہے”، کارنی نے رپورٹروں کو بتایا۔
قتل کی تحقیقات پر خاموشی
جب کارنی سے پوچھا گیا کہ کیا وہ موڈی کو نجر کے قتل میں ملوث سمجھتے ہیں، تو انہوں نے قانونی کارروائی کا حوالہ دے کر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ واضح رہے کہ چار بھارتی باشندوں پر نجر کے قتل کا الزام ہے اور امریکی عدالت میں بھی ایک علیحدہ سکھ رہنما کے قتل کی کوشش میں بھارتی افسر کی شمولیت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔