پاکستان کے وفاقی بجٹ 2025-26 کی تفصیلات سامنے آتے ہی یہ انکشاف ہوا ہے کہ ملک کی مالی خودمختاری پر قرضوں کا دباؤ پہلے سے کہیں زیادہ گہرا ہو چکا ہے۔ بجٹ کا سب سے بڑا حصہ — تقریباً 46.7 فیصد — صرف سود اور قرضوں کی اقساط کی ادائیگی پر خرچ کیا جائے گا، جو کہ ایک خطرناک معاشی اشارہ ہے۔
رقم کتنی ہے؟
کل بجٹ کا حجم 17.573 کھرب روپے ہے، جس میں سے 8.2066 کھرب روپے صرف قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ اگرچہ یہ گزشتہ مالی سال کی 8.945 کھرب روپے کی نظرثانی شدہ رقم سے 739 ارب روپے کم ہے، تاہم یہ کمی محض عددی ہے، جبکہ قرضوں کا دباؤ بدستور برقرار ہے۔
ادائیگیوں کی تقسیم:
-
اندرونی قرضوں کی ادائیگی: 7.197 کھرب روپے
-
بیرونی قرضوں کی ادائیگی: 1.009 کھرب روپے
عوامی قرضوں کی موجودہ حالت
مارچ 2024 تک پاکستان کا کل عوامی قرضہ 76.01 کھرب روپے (269 ارب ڈالر) تک پہنچ چکا ہے، جو کہ پچھلے 10 برسوں میں چار گنا بڑھ چکا ہے۔
-
اندرونی قرضہ: 51.52 کھرب روپے
-
بیرونی قرضہ: 24.49 کھرب روپے
یہ قرضہ اب پاکستان کی جی ڈی پی کے 66.27 فیصد کے برابر ہو چکا ہے، جو کہ قرضوں سے متعلق قانون (FRDLA) کی مقرر کردہ حد سے تجاوز ہے۔
🧾 نو ماہ میں سود کی ادائیگی:
مالی سال 2025 کے پہلے نو ماہ میں حکومت نے 6.44 کھرب روپے سود میں ادا کیے:
-
5.78 کھرب روپے مقامی قرض دہندگان کو
-
656 ارب روپے غیر ملکی اداروں کو
بیرونی ذرائع سے آمدن اور ادائیگیاں:
-
آمدن (جولائی تا مارچ 2025): $5.07 ارب
-
عالمی ادارے: $2.8 ارب
-
کمرشل ذرائع: $2.01 ارب
-
دو طرفہ شراکت دار: $258 ملین
-
-
ادائیگیاں: $5.636 ارب
-
عالمی اداروں کو: $2.828 ارب
-
دو طرفہ شراکت داروں کو: $1.565 ارب
-
کمرشل ذرائع کو: $1.243 ارب
-
قرضوں کا شیطانی چکر
وزارت خزانہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ بہتر مالی منصوبہ بندی اور طویل مدتی بانڈز کے ذریعے قرضوں کا دباؤ کم کر رہی ہے، لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں:
-
نجی سرمایہ کاری متاثر ہو رہی ہے
-
روپے کی قدر گر رہی ہے
-
مہنگائی بڑھ رہی ہے
-
اور ملک مزید قرض لینے پر مجبور ہو رہا ہے
: ترقی رک گئی، قرض بڑھ گیا
قرضوں کی یہ صورتحال نہ صرف معیشت کو غیر مستحکم کر رہی ہے بلکہ صحت، تعلیم اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے دستیاب وسائل کو بھی محدود کر رہی ہے۔ اگر یہی روش جاری رہی تو مستقبل کے بجٹ صرف قرضوں کی ادائیگی کے کاغذات بن کر رہ جائیں گے۔