امریکی ذرائع ابلاغ سی این این کے مطابق، امریکہ کو ایسی نئی انٹیلی جنس معلومات موصول ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل ایران کے جوہری تنصیبات پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ سی این این کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ ممکنہ حملہ اس وقت زیر غور آیا ہے جب امریکہ ایران کے ساتھ ایک نیا سفارتی معاہدہ طے کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
ان الزامات کی آزادانہ تصدیق ممکن نہیں ہو سکی، اور اسرائیلی حکام کی جانب سے بھی فی الحال کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔
امریکی حکام کے مطابق، یہ حملہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی سے کھلی بغاوت تصور کیا جائے گا، کیونکہ امریکہ ابھی تک ایران کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق، اسرائیل کی جانب سے بعض فوجی نقل و حرکت، فضائی مشقوں اور گولہ بارود کی منتقلی دیکھی گئی ہے، جو کسی ممکنہ حملے کی جانب اشارہ کر سکتی ہے۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اقدامات ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیے جا رہے ہوں تاکہ وہ اپنے جوہری پروگرام سے پیچھے ہٹ جائے۔
امریکی انٹیلی جنس حکام کے مطابق، اسرائیل کو یہ خدشہ ہے کہ امریکہ ایران کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کر سکتا ہے جس میں ایران کو یورینیم کی افزودگی کی جزوی اجازت دی جائے گی، جو اسرائیل کے لیے قابل قبول نہیں۔
ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر امریکہ ایران کے ساتھ ایسا معاہدہ طے کرتا ہے جو اسرائیل کے لیے ناقابل قبول ہو تو اسرائیل ممکنہ طور پر اکیلے ہی کارروائی کرے گا۔ اس سلسلے میں ایک سینئر امریکی عہدیدار نے کہا کہ اسرائیل کو اس وقت ایران کی عسکری کمزوری کا فائدہ نظر آ رہا ہے، خاص طور پر اس کے بعد جب اکتوبر 2024 میں اسرائیل نے ایرانی میزائل تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔
ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے حال ہی میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے کسی نتیجے کی توقع نہیں ہے، اور ایران کسی بھی حال میں یورینیم کی افزودگی کا اپنا حق نہیں چھوڑے گا۔
نوٹ: اس رپورٹ میں شامل تمام معلومات غیر مصدقہ انٹیلی جنس اور سفارتی ذرائع پر مبنی ہیں جن کی تصدیق آزاد ذرائع سے نہیں ہو سکی۔ رپورٹ صرف مبینہ بیانات اور دعوؤں پر مبنی ہے۔