مشہور سوشل میڈیا انفلوئنسر ثنا یوسف کے بہیمانہ قتل کے کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، جب عدالت نے مرکزی ملزم ان کے شوہر عمر کو چار دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ کیس نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، اور خواتین کے تحفظ، آن لائن سیفٹی اور گھریلو تشدد کے خلاف قانون سازی پر شدید بحث کو جنم دیا ہے۔ عدالت میں عمر نے بیان دیا:
"میرے گھر والوں نے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا” جس سے اس کی سماجی تنہائی اور خاندان کی ناراضگی کا اندازہ ہوتا ہے۔
عمر پر الزام ہے کہ اس نے اپنی بیوی ثنا کو انتہائی بے دردی سے قتل کیا، جو نہ صرف ایک ابھرتی ہوئی انفلوئنسر تھیں بلکہ اپنی نرم مزاجی اور مثبت رویے کی وجہ سے جانی جاتی تھیں۔ پولیس نے مزید ثبوت جمع کرنے، موبائل ڈیٹا اور فورنزک مواد حاصل کرنے کے لیے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی، جو عدالت نے منظور کر لی۔ اب عمر سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ جرم منصوبہ بندی کے تحت تھا یا اچانک غصے کا نتیجہ۔
عدالت میں عمر کا کہنا کہ اس کے گھر والے اس سے قطع تعلق کر چکے ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جرم کی شدت نے صرف عوام کو ہی نہیں، بلکہ خود اس کے خاندان کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ تاہم، یہ بیان کسی ہمدردی کے لائق نہیں کیونکہ جرم اپنی جگہ انتہائی سنگین ہے، اور کسی بھی ذاتی یا سماجی پریشانی کا اسے جواز نہیں بنایا جا سکتا۔