"خواتین کے لیے کھیل کا میدان کیوں تنگ؟ شہر میں ویمن فرینڈلی اسپورٹس اسپیسز کی کمی پر سوالات”
رپورٹ: Ayan
کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں روز بروز فٹنس اور اسپورٹس کلچر فروغ پا رہا ہے، وہیں خواتین کے لیے مخصوص اور محفوظ کھیل کے میدان نہ ہونے کے باعث کھیلوں میں ان کی شرکت محدود ہوتی جا رہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 2025 تک کراچی میں 180 سے زائد کھیل کے میدان موجود ہیں، لیکن ان میں سے صرف 12 میدان ایسے ہیں جہاں خواتین کو بلا خوف و خطر کھیلنے کی اجازت یا سہولت حاصل ہے۔
یہ صورتِ حال خواتین کھلاڑیوں کے لیے نہ صرف جسمانی سرگرمیوں میں رکاوٹ بن رہی ہے بلکہ کئی ٹیلنٹڈ لڑکیاں کھیل کو بطور کیریئر اپنانے سے بھی گریز کر رہی ہیں۔
ایک مقامی فٹبال اکیڈمی کی کوچ ثناء خان نے بتایا:
"ہمیں اکثر صبح یا دوپہر کے غیر موزوں اوقات میں پریکٹس دینی پڑتی ہے تاکہ مرد حضرات سے وقت الگ رکھا جا سکے۔ کچھ والدین اپنی بچیوں کو اجازت ہی نہیں دیتے کہ وہ مخلوط گراؤنڈز پر جائیں۔”
شہر کے پوش علاقوں میں تو کسی حد تک پرائیویٹ ویمن جم یا اسپورٹس کلب موجود ہیں، لیکن اورنگی، کورنگی، لیاری، یا لانڈھی جیسے علاقوں میں خواتین کے لیے اسپورٹس اسپیسز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کئی ضلعی گراؤنڈز صرف کرکٹ کے میل ایونٹس کے لیے بک ہوتے ہیں، جبکہ ویمن فٹبال، باسکٹ بال یا ایتھلیٹکس کے لیے کوئی سہولت موجود نہیں۔
اس مسئلے پر ماہرِ سماجیات ڈاکٹر رمشا عارف کا کہنا تھا:
"خواتین کی جسمانی سرگرمیاں صرف صحت ہی نہیں بلکہ خود اعتمادی اور سماجی شرکت کے لیے بھی ضروری ہیں۔ اگر محفوظ اسپیسز نہ ہوں گی، تو لڑکیاں کھیل سے دور ہوتی جائیں گی۔”
اسی سلسلے میں بعض NGOs اور تعلیمی ادارے "گرلز پلے اسپیس پروجیکٹ” جیسے اقدامات کر رہے ہیں، لیکن یہ کاوشیں ناکافی ہیں۔ ضرورت ہے کہ حکومت، بلدیاتی ادارے اور اسپورٹس بورڈ مل کر ہر ضلع میں کم از کم ایک خالصتاً خواتین کے لیے کھیل کا میدان مختص کریں — جہاں کوچز بھی خواتین ہوں، اور سہولتیں بھی مکمل ہوں۔