حالیہ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ اینٹی بائیوٹکس کے انسانی استعمال کے بعد ان کی باقیات پانی کے ذریعے دریاؤں میں شامل ہو رہی ہیں، جس سے نہ صرف آبی حیات متاثر ہو رہی ہے بلکہ انسانی صحت بھی شدید خطرات سے دوچار ہو سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ باقیات بیکٹیریا میں اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت پیدا کرتی ہیں، جو مستقبل میں "سپر بگس” جیسی مہلک بیماریوں کا سبب بن سکتی ہیں۔
اینٹی بائیوٹکس آخر دریاؤں تک کیسے پہنچتی ہیں؟
جب انسان یا جانور اینٹی بائیوٹکس استعمال کرتے ہیں تو ان کا کچھ حصہ جسم سے خارج ہو کر نکاسی آب کے نظام کا حصہ بن جاتا ہے۔ چونکہ زیادہ تر سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس ان دواؤں کو مکمل طور پر صاف کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے یہ کیمیکل دریاؤں اور جھیلوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوا ساز کارخانوں سے خارج ہونے والا صنعتی فضلہ بھی ان آلودگیوں کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
ماحولیاتی اور انسانی صحت پر اثرات:
اینٹی بائیوٹک مزاحمت: دریاؤں میں موجود اینٹی بائیوٹکس بیکٹیریا میں قوتِ مدافعت پیدا کر سکتی ہیں، جس سے ایسے جراثیم پیدا ہوتے ہیں جو عام دواؤں سے قابو میں نہیں آتے۔
آبی حیات کی بقا کو خطرہ: یہ کیمیکل مچھلیوں سمیت دیگر آبی جانوروں کی افزائش نسل اور جسمانی نظام پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔
انسانی صحت پر خطرہ: آلودہ پانی کے استعمال یا اس میں نہانے سے اینٹی بائیوٹک ریزسٹنس انسانوں میں بھی منتقل ہو سکتی ہے، جو بیماریوں کے علاج کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔
ایک عالمی تحقیق کے مطابق 72 ممالک کے 711 مقامات سے لیے گئے پانی کے نمونوں میں سے 65 فیصد میں اینٹی بائیوٹکس کی موجودگی پائی گئی، جبکہ کچھ جگہوں پر ان کی مقدار محفوظ حد سے 300 گنا زیادہ تھی، جیسا کہ بنگلہ دیش میں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اینٹی بائیوٹکس کے فضلے کی مؤثر نگرانی اور تلفی کے اقدامات نہ کیے گئے تو یہ مسئلہ عالمی سطح پر ایک صحت بحران کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔