امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دوسرے دورِ صدارت کا پہلا غیر ملکی دورہ کر رہے ہیں جس میں وہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کا سفر کریں گے۔ اس دورے کا مقصد سرمایہ کاری، تجارتی معاہدے اور علاقائی تنازعات پر بات چیت کرنا ہے۔
ٹرمپ کی اولین ترجیح امریکہ کے لیے بڑے پیمانے پر معاشی معاہدے حاصل کرنا ہے تاکہ وہ اپنے "America First” وژن کو مضبوط کر سکیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب ایک کھرب ڈالر امریکہ میں سرمایہ کاری کرے گا، جب کہ خلیجی ممالک امریکی سیمی کنڈکٹرز اور ایٹمی ٹیکنالوجی تک رسائی چاہتے ہیں۔
اس بار ٹرمپ نے اسرائیل جانے سے گریز کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق غزہ میں جنگ کے پیش نظر یہ تعلقات میں کشیدگی کی علامت ہے۔ سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات تبھی ممکن ہیں جب دو ریاستی حل کا واضح راستہ موجود ہو۔
ٹرمپ انتظامیہ نے غزہ میں امداد کی بحالی کا اعلان کیا ہے، مگر یہ فیصلہ اسرائیلی حکومت کی شمولیت کے بغیر کیا گیا ہے۔
دورے کے دوران وہ خلیجی ممالک سے "Persian Gulf” کو "Arabian Gulf” کہنے کا اعلان بھی کر سکتے ہیں، جو ایران کو ناراض کر سکتا ہے۔
ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اس دورے میں ایک بار پھر اہم کردار ادا کر رہے ہیں، خاص طور پر سعودی عرب کو Abraham Accords میں شامل کرنے کے لیے۔
تاہم، کچھ ماہرین کو شک ہے کہ ٹرمپ حکومت کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اتنے پیچیدہ مسائل کو یکجا اور مربوط طریقے سے سنبھال سکے۔
فی الحال، صدر ٹرمپ کی توجہ معیشت پر مرکوز ہے — جتنے معاہدے ہوں، اتنا فائدہ ہو۔