سعودی عرب اور ایران — مشرقِ وسطیٰ کے دو دیرینہ حریف — اب ایک نئی راہ پر گامزن نظر آ رہے ہیں۔ چین کے بڑھتے ہوئے کردار اور خطے میں بدلے ہوئے حالات کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہوئی ہے، اور اب تعلقات میں بہتری کی اُمید کی جا رہی ہے۔
چین کا کردار: سعودی-ایران تعلقات میں ثالثی کا نیا چہرہ
مارچ 2023 میں چین کی ثالثی سے سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات کی بحالی ایک تاریخی لمحہ تھی۔ چین، جو ماضی میں مشرقِ وسطیٰ کی سیاست سے دور رہا، اب ایک سنجیدہ عالمی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کرنے میں کردار ادا کر رہا ہے۔
یہ پیش رفت نہ صرف ایران و سعودیہ کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے ایک نیا باب ثابت ہو سکتی ہے۔
سعودی عرب کی پالیسی میں بڑی تبدیلی: مذہبی سیاست سے معیشت کی طرف
ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب نے ویژن 2030 کے تحت اپنی معیشت کو تیل پر انحصار سے نکالنے اور سیاحت، سرمایہ کاری اور جدید ٹیکنالوجی کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نئی پالیسی کے لیے خطے میں امن اور استحکام انتہائی ضروری ہے، جس کا پہلا قدم ایران سے تعلقات بہتر بنانا ہے۔
ایران کی پیشکش: جوہری پروگرام پر شفافیت کی یقین دہانی
ایران نے سعودی عرب کو یہ پیشکش کی ہے کہ وہ اُس کے جوہری پروگرام کی نگرانی کر سکتا ہے تاکہ اعتماد بحال ہو۔ تہران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری منصوبہ صرف سستی اور صاف توانائی کے حصول کے لیے ہے، نہ کہ اسلحہ بنانے کے لیے۔
یہ یقین دہانیاں دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی میں مدد دے سکتی ہیں۔
اعلیٰ سطحی دورے: تعلقات میں گرم جوشی کا ثبوت
حالیہ مہینوں میں دونوں ممالک کے درمیان کئی اہم دورے ہوئے:
-
سعودی ولی عہد اور وزیرِ خارجہ نے ایران کا دورہ کیا
-
اس کے بعد ایران کے وزیرِ خارجہ نے ریاض کا دورہ کیا
یہ تمام سرگرمیاں اس بات کی علامت ہیں کہ دونوں ممالک ماضی کی تلخیوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔
اسرائیل اور غزہ کا تنازع: ایک مشترکہ تشویش
غزہ میں اسرائیل کی کاروائیوں اور الحاق (Annexation) کے منصوبے نے عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ سعودی عرب کے لیے اس وقت اسرائیل سے تعلقات بنانا عوامی سطح پر شدید ردِعمل کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے برعکس، ایران کے ساتھ قریبی تعلقات ایک سیاسی توازن فراہم کرتے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ پر اثرات: طاقت کا نیا توازن
یہ ابھرتا ہوا سعودی-ایرانی تعاون نہ صرف خطے کی سیاست میں تبدیلی لا سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اہم اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ چین کی حمایت، اقتصادی مفادات اور سیکیورٹی خدشات کے تناظر میں یہ تعلقات دیرپا بھی ہو سکتے ہیں۔
سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں بہتری اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ اب نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔ جب عالمی طاقتوں کے کردار بدل رہے ہوں اور معیشت کو مذہبی سیاست پر ترجیح دی جا رہی ہو، تو ایسے میں پرانے دشمن اب ممکنہ شراکت دار بننے کو تیار ہیں۔
اگر یہ سفارتی تعلقات برقرار رہتے ہیں تو یہ خطے کے مستقبل کی سمت متعین کر سکتے ہیں۔