ایک نوجوان برطانوی پرندہ شناس نے خبردار کیا ہے کہ ایک مچھر سے پھیلنے والی بیماری، جس کی وجہ سے بلیک برڈ (کالا پرندہ) کی آبادی میں تیزی سے کمی آ رہی ہے، اس بات کی علامت ہے کہ برطانیہ کی جنگلی حیات شدید مشکلات کا شکار ہے۔
23 سالہ مایا روز کریگ، جو سمرسیٹ کے چیُو ویلی سے تعلق رکھتی ہیں اور سوشل میڈیا پر برڈ گرل یو کے کے نام سے مشہور ہیں، کا کہنا ہے کہ جنوبی انگلینڈ میں اُسُتو وائرس کے پھیلاؤ سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانوی حیاتِ جنگلی کو ایسے خطرات لاحق ہیں جن کا اکثر لوگوں کو ادراک نہیں۔
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، پچھلے پانچ برسوں میں گریٹر لندن میں بلیک برڈ کی آبادی میں 40 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے دنیا کا درجہ حرارت بڑھتا ہے، مچھروں کی حد بڑھتی جائے گی، اور اس سے وہ بیماریاں زیادہ پھیلیں گی جو یہ مچھر لے کر آتے ہیں۔
مایا روز کریگ نے بی بی سی بریک فاسٹ کو بتایا:
"میری سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ بلیک برڈ برطانیہ کی سب سے عام نسلوں میں سے ایک ہے — جب آپ پرندوں کی چہچہاہٹ سنتے ہیں، تو وہ اکثر انہی کی ہوتی ہے۔ یہ بہت افسوسناک ہے۔”
کریگ نے بلیک ٹو نیچر نامی مہم شروع کی ہے تاکہ اقلیتی برادریوں کے بچوں کو قدرتی ماحول اور تحفظ کے کاموں میں شامل کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلیاں، گرم موسم اور زیادہ سیلاب اس بیماری کے پھیلاؤ کو مزید بدتر بنا رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بلیک برڈ واحد متاثرہ نسل نہیں — چونچ والے اسٹارلنگ جیسے پرندوں کی آبادی میں بھی 1960 کی دہائی کے بعد سے 80 فیصد کمی آ چکی ہے۔
مایا روز کریگ نے زور دیا کہ قدرتی ماحول اور پرندوں کی چہچہاہٹ انسانوں کی ذہنی صحت کے لیے بہت اہم ہے:
"اکثر جب ہم نسلوں کی کمی کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو یہ بہت الگ تھلگ محسوس ہوتا ہے، لیکن ذرا تصور کریں کہ ایک ایسا شہر جہاں پرندوں کی آواز نہ ہو — اس کے لوگوں پر بھی بہت برا اثر پڑتا ہے۔”