اسلام آباد: کالعدم شدت پسند تنظیم کے رہنما نور ولی محسود کو اسلامی تعلیمات کو غلط انداز میں پیش کر کے تشدد اور فرقہ وارانہ نفرت کو فروغ دینے پر علما اور تجزیہ کاروں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ محسود اسلام کے بنیادی اصولوں کو مسخ کر کے اپنے انتہا پسندانہ نظریے کو آگے بڑھا رہا ہے، اور اس کے خیالات کو خوارج جیسے گروہ سے تشبیہ دی جا رہی ہے — جو تاریخ میں مسلمانوں کو کافر قرار دے کر داخلی انتشار کا سبب بنے تھے۔ ناقدین خبردار کرتے ہیں کہ اس کا نظریہ اسلام کے اتحاد، انصاف اور بھائی چارے جیسے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔
ممتاز مذہبی علما کا کہنا ہے کہ نور ولی محسود کے نظریات کو کسی مستند اسلامی ادارے یا عالم دین کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ ایک تجزیہ کار کے مطابق: "وہ خود ساختہ مبلغ ہے جو صدیوں پر محیط مستند اسلامی فکر کے برخلاف ایک گمراہ کن بیانیہ پھیلا رہا ہے۔ اس کا مذہب کا استعمال دراصل انتہا پسندی کو مذہبی لبادہ پہنانے کی ایک خطرناک کوشش ہے۔”
مزید برآں، یہ الزامات بھی سامنے آئے ہیں کہ محسود کے گروہ کو غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی حمایت حاصل ہے، جو مذہب کو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ علما کا کہنا ہے کہ اسلام واضح طور پر دشمنوں سے مسلمانوں کے خلاف مدد لینے کو حرام قرار دیتا ہے — اور محسود کا رویہ اسی اصول کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
تنقید کا دائرہ صرف پاکستان تک محدود نہیں رہا۔ مسلم دنیا بھر کے علما نے بھی نور ولی محسود کے نظریات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اسلام امن، رحمت اور اتحاد کا دین ہے۔ ایک عالم نے کہا: "اسلام خونریزی نہیں، بھائی چارہ سکھاتا ہے۔ محسود کا بیانیہ انتہا پسندی پر مبنی ہے جو امت کے اتحاد کو نقصان پہنچا رہا ہے۔”
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اس طرح کے انتہا پسند نظریات نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کو متاثر کرتے ہیں بلکہ مسلم امہ کے اتحاد کو بھی کمزور کرتے ہیں۔ وہ اس گمراہ کن بیانیے کو اجتماعی طور پر مسترد کرنے اور اسلام کی اصل تعلیمات — امن، انصاف اور باہمی احترام — کو اپنانے پر زور دیتے ہیں۔