"نہ ٹریک، نہ کوچ: ایتھلیٹکس پاکستان میں پس منظر میں کیوں چلا گیا؟”
رپورٹ: Ayan
ایتھلیٹکس، جسے کھیلوں کی ماں کہا جاتا ہے، پاکستان میں دن بدن نظر انداز ہوتا جا رہا ہے۔ دوڑ، لانگ جمپ، ہائی جمپ، جیولن تھرو، شاٹ پٹ، اور دیگر بنیادی کھیل اب اسکولوں اور کالجوں سے تقریباً غائب ہو چکے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس وقت مزید تشویشناک ہو جاتی ہے جب ملک کی نمائندگی کے لیے بین الاقوامی ایونٹس میں ایتھلیٹس کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہو۔
ایتھلیٹکس فیڈریشن آف پاکستان کے مطابق، 2025 تک پورے ملک میں رجسٹرڈ ایتھلیٹس کی تعداد صرف 2,700 رہ گئی ہے، جو 2010 میں 7,500 تھی۔ ملک بھر میں صرف 17 ایسے ٹریک موجود ہیں جو کسی حد تک بین الاقوامی معیار پر پورے اترتے ہیں — ان میں سے بھی اکثر خراب حالت میں ہیں۔
کراچی کے علاقے ناظم آباد میں واقع عبدالستار ایدھی اسپورٹس کمپلیکس میں موجود ٹریک کی حالت قابلِ رحم ہے۔ وہاں پریکٹس کرنے والے نوجوان ایتھلیٹ جنید اکرم بتاتے ہیں:
"ہم ننگے پیر یا گھاس پر پریکٹس کرتے ہیں، کوئی کوچ نہیں، کوئی سہولت نہیں۔ اگر موقع ملے تو ہم بھی انٹرنیشنل لیول پر جا سکتے ہیں۔”
اسی طرح لاہور، فیصل آباد، اور پشاور میں بھی بیشتر اداروں کے پاس ایتھلیٹکس کے لیے نہ ٹریک ہیں نہ کوچز۔ اکثر طلبہ فٹبال یا کرکٹ کی طرف چلے جاتے ہیں کیونکہ وہاں زیادہ مواقع اور توجہ موجود ہے۔
خواتین ایتھلیٹس کو درپیش مسائل اس سے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ ان کے لیے علیحدہ ٹریک نہ ہونے، لباس کی حساسیت، اور والدین کے خدشات کے باعث زیادہ تر لڑکیاں کالج کے بعد کھیل ترک کر دیتی ہیں۔
ڈاکٹر آمنہ رفیق، جو نیشنل یونیورسٹی کی فزیکل ایجوکیشن پروفیسر ہیں، کہتی ہیں:
"ہمیں نچلی سطح پر ایتھلیٹکس کو بحال کرنا ہوگا، ورنہ پاکستان اولمپکس جیسے مقابلوں میں صرف تماشائی ہی بنا رہے گا۔”
ایتھلیٹکس فیڈریشن کی محدود فنڈنگ اور حکومتی اداروں کی غفلت اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ اگرچہ بعض NGOs ایتھلیٹکس کی تربیت کے لیے سرگرم ہیں، لیکن یہ اقدامات ملک گیر سطح پر ناکافی ہیں۔
یہ وقت ہے کہ کھیلوں کے حکام، تعلیمی ادارے، اور میڈیا مل کر ایتھلیٹکس جیسے بنیادی کھیل کو دوبارہ زندہ کریں، تاکہ پاکستان بھی عالمی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائے۔