“سگریٹ نوشی آپ کو اسٹائلش نہیں بناتی، بلکہ آہستہ آہستہ آپ کو مٹا دیتی ہے۔”
تمباکو کیا ہے؟
تمباکو ایک پودا ہے جس کے پتے خشک کر کے سگریٹ، پان، یا نسوار کی صورت میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس میں پایا جانے والا بنیادی نشہ آور مادہ نکوٹین ہے، جو دماغ کے انعامی نظام کو متاثر کر کے عادت ڈال دیتا ہے۔ لیکن نقصان صرف نکوٹین سے نہیں، بلکہ 7,000 سے زائد کیمیکلز جیسے آرسینک، سیسہ، اور فارملڈیہائیڈ سگریٹ نوشی کے دوران خارج ہوتے ہیں، جو جسم کے لیے انتہائی مضر ہیں۔
نوجوانوں کی تباہی: ایک جلتا ہوا ملک
پاکستان میں تمباکو خاموشی سے نوجوانوں کا سب سے بڑا دشمن بن چکا ہے۔ ہر روز 615 بچوں کے قریب سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں۔ فلموں، دوستوں کے دباؤ اور فیشن کے جھوٹے تصور سے متاثر ہو کر نوجوان اس لعنت کو اپناتے ہیں، اس کے خطرناک نتائج سے بے خبر۔ پھیپھڑوں کا کینسر، دل کی بیماریاں، اور جسمانی نشوونما میں رکاوٹ محض شروعات ہیں۔
اشرافیہ اور دھوئیں کے پیچھے چھپی صنعت
پاکستان کی اشرافیہ بڑے کاروباری افراد، شوبز ستارے، اور سیاستدان یا تو خاموشی اختیار کرتے ہیں یا بالواسطہ طور پر تمباکو کی صنعت کی حمایت کرتے ہیں۔ بعض لوگ سگریٹ کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، اشتہارات سے منافع کماتے ہیں یا اپنے اثرورسوخ کو نظر انداز کرتے ہیں۔ پرتعیش محفلیں، شیشہ کیفے، اور درآمد شدہ سگار محض تفریح نہیں بلکہ ایک زہریلی سماجی قبولیت کی علامت بنتی جا رہی ہیں۔ ان کی خاموشی دراصل شراکت داری ہے۔
ایک بڑھتا ہوا صحت کا بحران
عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق پاکستان میں ہر سال 1,60,000 سے زائد اموات تمباکو سے جڑی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں۔ یہ گویا ہر سال ایک چھوٹے شہر کے برابر لوگ ختم ہو رہے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں پر بوجھ حد سے بڑھ چکا ہے، کینسر، دل کی بیماریاں، اور سانس کی تکالیف عام ہو چکی ہیں۔ یہ صرف طرز زندگی کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی صحت کی ایمرجنسی ہے۔
ماحولیاتی تباہی: ایک سگریٹ سے شروعات
تمباکو صرف انسان کو نہیں بلکہ ماحول کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ تمباکو کی کاشت کے لیے جنگلات کی کٹائی، اور دنیا بھر میں 5 ٹریلین سگریٹ کے فلٹرز زمین پر پھینکے جاتے ہیں۔ پاکستان کی گلیاں ان فلٹرز سے بھری پڑی ہیں، جو مٹی اور پانی کو آلودہ کرتے ہیں۔ اور ہوا؟ وہ بھی زہریلی ہو چکی ہے — خاص طور پر غیر سگریٹ نوش افراد کے لیے جو passive smoking کا شکار ہوتے ہیں۔
آپ کیا کر سکتے ہیں؟
خود آگاہی: سگریٹ نوشی کے نقصانات صرف طویل المدت نہیں بلکہ فوری بھی ہوتے ہیں۔
اہداف طے کریں: روزانہ کی بنیاد پر سگریٹ کی مقدار کم کریں۔
مدد حاصل کریں: سپورٹ گروپ، ایپس یا ماہر مشیر سے رابطہ کریں۔
مصروف رہیں: کسی مشغلے، ورزش، یا رضاکارانہ کام میں مشغول ہوں۔
اچھے ساتھی چنیں: اگر آپ چھوڑنا چاہتے ہیں تو سگریٹ نوشوں سے بچیں۔
تبدیلی کا آغاز آپ سے ہوتا ہے۔
پاکستان بمقابلہ دنیا: ایک عالمی موازنہ
مغربی ممالک میں سگریٹ نوشی کی شرح میں بڑی کمی آئی ہے، اس کی وجہ سخت قوانین، آگاہی مہمات اور بھاری ٹیکس ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں سگریٹ نوشی کی شرح 14% سے کم ہو چکی ہے۔
جبکہ مشرق وسطیٰ میں صورتحال ملی جلی ہے — کچھ جدید شہر سخت قوانین نافذ کرتے ہیں، لیکن کچھ علاقوں میں ابھی بھی عمل درآمد کا فقدان ہے۔
پاکستان میں سگریٹ نوشوں کی شرح 19.1% ہے، جو کہ خطرناک حد ہے۔ اور زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ نوجوانوں میں فلیورڈ سگریٹ اور ویپنگ کے ذریعے تمباکو کا استعمال بڑھ رہا ہے۔
حکومت کیا کر رہی ہے؟
پاکستان کی حکومت نے تمباکو پر قابو پانے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں، جیسے
سگریٹ کے پیک پر تصویری وارننگز۔
عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی۔
تمباکو پر ٹیکس میں اضافہ۔
اشتہارات پر پابندی۔
مگر ان اقدامات پر عمل درآمد کمزور ہے۔ تمباکو کمپنیوں کا سیاسی اثر، کم آگاہی، اور عملدرآمد کی کمی ان اقدامات کو ناکام بنا دیتی ہے۔
پالیسی کی امیدیں: ایک صحت مند کل کی جانب
کچھ امید افزا تجاویز جو زیر غور ہیں:
سکولوں کے اردگرد تمباکو فری زونز۔
سادہ پیکجنگ جس پر کوئی برانڈنگ نہ ہو۔
سکولوں میں انسداد تمباکو تعلیم۔
قومی Quitline اور ڈیجیٹل سپورٹ سروسز۔
سرکاری اسپتالوں میں مفت یا سستی علاج معالجہ کی سہولت۔
ایک بہتر کل کے لیے پالیسی کا نفاذ ضروری ہے۔ صرف کاغذی کارروائی کافی نہیں۔
عوام کی رائے
علی (19 سالہ طالبعلم): “میں نے کالج میں صرف فٹ ان ہونے کے لیے سگریٹ پینا شروع کیا۔ اب چھوڑ نہیں سکتا۔ دو بار کوشش کی مگر ہر بار دوبارہ شروع کر دی۔”
سارا (طبی انٹرن): “علی، تمہیں پتہ ہے کیا بدتر ہے؟ تم ہر روز اپنے پھیپھڑوں کو تباہ کر رہے ہو۔ میں نے 30 سال کے نوجوانوں کے پھیپھڑے 70 سال کے بوڑھوں جیسے دیکھے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے، چھوڑ دو۔”
حمزہ (علی کا دوست، سابق سگریٹ نوش): “میں بھی تم جیسا ہی تھا۔ لیکن چھوڑنے کے بعد میری زندگی بدل گئی۔ اب بہتر سانس لیتا ہوں، خود اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے، اور بہت پیسے بھی بچے ہیں۔ تمہیں صرف شروعات کی ہمت چاہیے۔”
یاد رکھنے کے لیے ایک قول
“عادت کی زنجیریں اتنی کمزور ہوتی ہیں کہ محسوس نہیں ہوتیں یہاں تک کہ وہ اتنی مضبوط ہو جائیں کہ توڑی نہ جا سکیں۔” سیموئل جانسن
آئیے ان زنجیروں کو توڑیں اس سے پہلے کہ وہ ناقابلِ شکست بن جائیں۔