پاکستان کے سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ اسلام آباد بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب امور — بشمول مسئلہ کشمیر — پر بات چیت کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ مذاکرات کے لیے سازگار ماحول موجود ہو۔
بھارتی میڈیا ادارے دی وائر کو انٹرویو دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان کبھی بھی بات چیت سے پیچھے نہیں ہٹا، اور جنوبی ایشیا کے بہتر مستقبل کے لیے پرامن مذاکرات ضروری ہیں۔
"ہم ہمیشہ بات چیت کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ فیصلہ بھارت نے کرنا ہے کہ کیا وہ امن کی طرف بڑھنا چاہتا ہے یا نہیں،” انہوں نے کہا۔ "اگر دوسری جانب سے سنجیدگی دکھائی گئی تو پاکستان مثبت جواب دے گا۔”
بلاول، جو اگست 2023 تک پاکستان کے وزیر خارجہ رہے، نے اعتراف کیا کہ پاک بھارت تعلقات میں پیچیدگیاں ضرور ہیں، لیکن دونوں ممالک کو اپنے عوام کے مفاد میں مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے تلاش کرنا ہوگا۔ "یہ خطہ مزید جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں، اور جتنے جلدی ہوں اتنا بہتر ہوگا،” انہوں نے زور دیا۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کشمیر کے مسئلے پر دونوں ممالک میں تناؤ جاری ہے۔ بھارت نے اگست 2019 میں آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی، جسے پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی حمایت کرتی ہے، تو بلاول نے کہا کہ پارٹی ہمیشہ خطے میں امن اور بات چیت کی حامی رہی ہے۔ "لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے بنیادی مفادات پر سمجھوتہ کریں،” انہوں نے وضاحت کی۔
بھارت نے تاحال بلاول کے بیان پر کوئی سرکاری ردعمل نہیں دیا، لیکن ان کے ریمارکس سرحد کے دونوں جانب میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب بھارت میں عام انتخابات قریب ہیں۔
اگرچہ 2019 سے دو طرفہ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، بلاول کے یہ بیانات پاکستان کی سیاسی قیادت کے انداز میں ممکنہ تبدیلی — یا کم از کم لہجے میں نرمی — کا عندیہ دیتے ہیں۔ آیا بھارت اس کا مثبت جواب دے گا یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا، مگر پیغام واضح ہے: اسلام آباد نے بات چیت کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔