اسلام آباد – وفاقی حکومت نے مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں توانائی کے شعبے کی سبسڈی میں 13 فیصد کمی کرتے ہوئے اسے 1.036 کھرب روپے کر دیا ہے، جو گزشتہ سال 1.190 کھرب روپے تھا۔
وفاقی بجٹ دستاویزات کے مطابق، کل سبسڈیز میں 14 فیصد کمی کی گئی ہے، جو مالی سال 2024-25 کے نظرثانی شدہ تخمینے 1.378 کھرب روپے سے گھٹ کر 1.186 کھرب روپے رہ گئی ہیں۔
اہم شعبہ جات میں کمی کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
-
انٹر ڈسکو ٹیرف ڈیفرنس سبسڈی: 276 ارب روپے سے گھٹ کر 249.13 ارب روپے، یعنی 9.8 فیصد کمی۔
-
بلوچستان میں زرعی ٹیوب ویل: 9.5 ارب روپے سے گھٹ کر 4 ارب روپے۔
-
خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع (سابقہ فاٹا): 65 ارب روپے سے کم ہو کر 40 ارب روپے، یعنی 38.5 فیصد کمی۔
-
آزاد کشمیر (اے جے کے): 108 ارب روپے سے کم ہو کر 74 ارب روپے، یعنی 31.5 فیصد کمی۔
-
کے-الیکٹرک: 174 ارب روپے سے کم ہو کر 125 ارب روپے، یعنی 28 فیصد کمی۔
پاکستان انرجی ریزالوِنگ فنڈ (PERA) کے تحت 48 ارب روپے برقرار رکھے گئے ہیں، جو ہر ماہ 5 ارب روپے چینی آئی پی پیز کو ادائیگی کے لیے مختص ہیں (CPEC منصوبے کے تحت)۔
آئی پی پیز (IPPs) کو دی جانے والی سبسڈی بھی 115 ارب روپے سے کم ہو کر 95 ارب روپے کر دی گئی ہے۔ جبکہ پاور سبسڈی کے لیے مجموعی مد میں 400 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جو پچھلے مالی سال کے 509 ارب روپے سے کم ہیں۔
پیٹرولیم سبسڈی میں بھی نمایاں کمی کرتے ہوئے اسے 1.2 ارب روپے تک محدود کر دیا گیا ہے، جو مالی سال 2023-24 میں 18.4 ارب روپے تھی۔ ایشیا پیٹرولیم یا ایس این جی پی ایل کے ذریعے گھریلو صارفین کے لیے کسی قسم کی سبسڈی مختص نہیں کی گئی۔
دیگر شعبہ جات کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
-
پاسکو (PASSCO): 20 ارب روپے مختص، جس میں 14 ارب روپے گندم کے ذخائر اور 6 ارب روپے قیمت کے فرق کے لیے۔
-
صنعت و پیداوار: 68 ارب روپے سے کم ہو کر 24 ارب روپے، جس میں 9 ارب روپے الیکٹرک گاڑی اسکیم اور 15 ارب روپے یوٹیلیٹی اسٹورز کے واجبات کے لیے مختص۔ وزیر اعظم کے رمضان یا USC پیکیج کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی۔
-
دیگر سبسڈیز: 75 ارب روپے سے بڑھا کر 104.7 ارب روپے کر دی گئیں، جن میں گلگت بلتستان کے لیے گندم، یوریا درآمد، SME اسکیمز، کم لاگت ہاؤسنگ، اور میٹرو بس جیسے منصوبے شامل ہیں۔
بجٹ میں سبسڈیز میں یہ کمی آئی ایم ایف سے طے پانے والے ممکنہ معاہدے اور مالیاتی خسارہ کم کرنے کے اقدامات کا حصہ سمجھی جا رہی ہے۔