اسلام آباد – 11 جون 2025
پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) نے وفاقی بجٹ 2025-26 میں درآمدی سولر پینلز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس کی تجویز کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ ٹیکس مقامی مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لیے لگایا گیا ہے، تاہم پیپلز پارٹی، ماہرینِ توانائی، اور انڈسٹری گروپس نے اسے "ماحول دشمن اقدام” قرار دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکس نہ صرف عام صارفین کے لیے سولر سسٹمز مہنگے کرے گا بلکہ ملک میں تیزی سے ترقی کرتے ہوئے صاف توانائی کے شعبے کو بھی نقصان پہنچائے گا۔
ایک سینئر رہنما نے کہا،
"یہ ٹیکس پاکستان کی ماحولیاتی پالیسیوں پر کاری ضرب ہے۔ ہمیں سولر کو فروغ دینا چاہیے، رکاوٹیں نہیں ڈالنی چاہییں۔”
پاکستان سولر ایسوسی ایشن (PSA) نے بھی حکومت کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے سولر پینلز کی تنصیب کی رفتار سست پڑ سکتی ہے۔ 2024 میں پاکستان نے تقریباً 17 گیگا واٹ سولر پینلز درآمد کیے، جن میں سے زیادہ تر چین سے آئے۔ مارچ 2025 تک نیٹ میٹرنگ کے تحت لگنے والی تنصیبات 2.8 گیگا واٹ تک پہنچ چکی ہیں۔
پی ایس اے کے ترجمان نے کہا،
"پاکستان کی سولر ترقی کا انحصار سستی اور معیاری درآمدات پر ہے۔ یہ ٹیکس ایسی ترقی کو روک سکتا ہے جبکہ مقامی صنعت ابھی اس قابل نہیں کہ ملکی طلب پوری کر سکے۔”
وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکس مقامی مینوفیکچررز کو سہارا دینے کے لیے لگایا گیا ہے، مگر ناقدین کے مطابق مقامی صنعت میں ابھی جدید اور مؤثر سولر ٹیکنالوجی تیار کرنے کی صلاحیت موجود نہیں۔
اس وقت پاکستان کی کل بجلی کا تقریباً 14 فیصد حصہ شمسی توانائی سے حاصل ہو رہا ہے، جو 2021 میں صرف 4 فیصد تھا۔ یہ رفتار کئی عالمی معیارات سے بھی زیادہ ہے۔
وفاقی بجٹ پر قومی اسمبلی میں بحث جاری ہے، اور امکان ہے کہ پیپلز پارٹی اور دیگر اسٹیک ہولڈرز اس ٹیکس کے خلاف لابنگ جاری رکھیں گے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر یہ ٹیکس نافذ ہوا تو گھریلو اور تجارتی سطح پر سولر اپنائے جانے کی رفتار کم ہو جائے گی، اور ماحولیاتی اہداف حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔
حتمی بجٹ جون کے آخر تک منظور ہونے کا امکان ہے۔