شام نے ایک بڑے قدم کے طور پر قطر، ترکی اور امریکہ کی کمپنیوں کے کنسورشیم کے ساتھ 7 ارب ڈالر کا توانائی معاہدہ کیا ہے، جس کا مقصد جنگ سے متاثرہ بجلی کے نظام کو بحال کرنا ہے۔
یہ معاہدہ دمشق کے صدارتی محل میں طے پایا، جس میں صدر احمد الشراء اور امریکہ کے سفیر تھامس بریک شریک ہوئے۔ منصوبے کے تحت شام میں 5,000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔
معاہدے میں قطر کی یو سی سی کنسیشن انویسٹمنٹس، ترکی کی کالیون جی ای ایس انرجی اور جنگیز انرجی، اور امریکہ کی پاور انٹرنیشنل یو ایس اے شامل ہیں۔
شامی وزیر توانائی محمد البشیر نے معاہدے کو "ایک اہم سنگ میل” قرار دیا اور کہا کہ یہ شراکت داری ملک کی تعمیر نو کے سفر میں ایک نئی راہ ہموار کرے گی۔ "یہ منصوبہ توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد دے گا اور عوامی زندگی میں بہتری لائے گا۔”
منصوبے میں شام کے مرکزی اور مشرقی حصوں میں چار گیس پر مبنی پاور پلانٹس اور جنوبی علاقے میں ایک ہزار میگاواٹ کا سولر منصوبہ شامل ہے۔ ان منصوبوں میں امریکی اور یورپی ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔
یو سی سی کے سی ای او رامز الخیّاط کے مطابق، یہ منصوبہ 50,000 سے زائد براہِ راست اور 250,000 بالواسطہ روزگار کے مواقع پیدا کرے گا۔
امریکی سفیر تھامس بریک کا کہنا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شام پر سے پابندیاں ہٹانے کے بعد یہ معاہدہ ممکن ہوا۔ انہوں نے اسے ایک "مثبت معاشی اشتراک” قرار دیا۔
ادھر ترکی کے وزیر توانائی نے بھی اعلان کیا ہے کہ ترکی شام کو سالانہ دو ارب کیوبک میٹر قدرتی گیس فراہم کرے گا، جس سے مزید 1,300 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی۔
یہ معاہدہ ایسے وقت پر ہوا ہے جب شام غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے اپنے دروازے کھول رہا ہے اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو پر توجہ دے رہا ہے۔