امریکی اور عراقی ذرائع کے مطابق، امریکہ نے عراق میں اپنے سفارت خانے سے جزوی انخلا کا فیصلہ کیا ہے اور بحرین، کویت جیسے ممالک سے فوجی اہلکاروں کے اہلِ خانہ کو رضاکارانہ واپسی کی اجازت دے دی ہے۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشرق وسطیٰ میں کشیدگی اپنے عروج پر ہے، اور ایران کی ممکنہ جوابی کارروائی کے خطرے نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ اس خبر کے بعد تیل کی قیمتوں میں 4 فیصد سے زائد اضافہ دیکھنے میں آیا، برینٹ کروڈ 69.18 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گیا۔
وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ جبکہ امریکی وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ فیصلہ بیرون ملک تعینات عملے کے حالیہ سکیورٹی جائزے کے بعد کیا گیا۔
اگرچہ کویت میں امریکی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ اس کے عملے کی تعیناتی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، دیگر سفارت خانے عملے میں کمی کر رہے ہیں۔ وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹھ نے بحرین سمیت دیگر مقامات پر موجود فوجی اہلکاروں کے خاندانوں کو واپسی کی اجازت دے دی ہے۔
ایرانی وزیر دفاع عزیز ناصرزادے نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران پر حملہ کیا گیا تو وہ خطے میں امریکی اڈوں پر جوابی حملے کرے گا۔
ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کا اگلا دور جلد متوقع ہے۔ تاہم ٹرمپ نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ایران یورینیم افزودگی بند کرنے پر تیار نہیں اور امریکہ کو مذاکرات کی کامیابی پر شک ہے۔
مشرقی وسطیٰ میں حالیہ مہینوں میں امریکی فوجی تنصیبات میں اضافہ بھی کیا گیا تھا، جن میں B-2 بمبار طیارے اور ایئرکرافٹ کیریئر شامل تھے۔ برطانوی سمندری ایجنسی نے بھی گلف، خلیج عمان، اور آبنائے ہرمز میں ممکنہ فوجی جھڑپوں کے خطرے کی وارننگ جاری کی ہے۔
عراق، جو ایران اور امریکہ دونوں کا شراکت دار ہے، وہاں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں نے بارہا امریکی افواج پر حملے کیے ہیں، اگرچہ حالیہ مہینوں میں ان حملوں میں کمی آئی ہے۔
دریں اثنا، امریکی جنرل ایرک کُریلا نے خطے کی بگڑتی صورتحال کے باعث کانگریس میں اپنی پیشی ملتوی کر دی ہے۔ انہوں نے اس سے قبل صدر کو ایران کے خلاف مختلف فوجی آپشنز پیش کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
ایران نے اقوام متحدہ کے مشن کے ذریعے بیان جاری کیا:
"طاقتور کارروائی کی دھمکیاں حقائق نہیں بدل سکتیں: ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنا نہیں چاہتا، اور امریکی جارحیت صرف عدم استحکام کو ہوا دیتی ہے۔”
اب دنیا کی نظریں آئندہ مذاکرات پر ہیں – کیا سفارتکاری کامیاب ہوگی یا جنگ کی آگ مزید بھڑکے گی؟