ایک طویل مدتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ وہ خواتین جو درمیانی عمر میں معتدل مقدار میں کافی پیتی تھیں، عمر رسیدہ ہونے کے باوجود جسمانی طور پر فعال، ذہنی طور پر تروتازہ اور سنگین بیماریوں سے نسبتاً محفوظ رہیں۔
یہ تحقیق امریکہ میں 47,000 سے زائد خواتین پر کی گئی اور اس کا دورانیہ 30 سال پر محیط تھا۔ تحقیق کی سربراہ اور ہارورڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف ٹورنٹو کی ماہر غذائیت سارہ مہدوی نے ایک بیان میں کہا:
"اگرچہ ماضی میں کافی کو انفرادی صحت کے فوائد سے جوڑا گیا تھا، لیکن ہماری تحقیق پہلی ہے جو تین دہائیوں پر مشتمل مختلف پہلوؤں میں عمر رسیدگی پر کافی کے اثرات کا جائزہ لیتی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا، "تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ کیفین والی کافی — نہ کہ چائے یا ڈی کیف کافی — عمر رسیدگی کے ایسے راستے فراہم کر سکتی ہے جو ذہنی اور جسمانی کارکردگی کو برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے۔”
سارہ مہدوی اور ان کی ٹیم نے اس مطالعے کے لیے "نرسز ہیلتھ اسٹڈی” نامی ایک طویل مدتی منصوبے کا ڈیٹا استعمال کیا، جو امریکہ میں نرسز کی صحت کا ریکارڈ رکھتا ہے۔
1984 سے 2016 تک نرسز کے کھانے پینے اور صحت کے متعلق معلومات کا تجزیہ کیا گیا۔
2016 تک 3,706 خواتین ایسی تھیں جو صحت مند بڑھاپے کی شرائط پر پوری اُترتی تھیں۔ ان خواتین کی روزانہ کیفین کا تقریباً 80 فیصد ذریعہ تین چھوٹے کپ کافی تھے۔
تحقیق کے مطابق باقاعدگی سے کیفین والی کافی پینے کا صحت مند بڑھاپے پر مثبت اثر پڑا، جبکہ چائے اور ڈی کیف کافی کا کوئی خاص اثر نہ تھا — نہ فائدہ، نہ نقصان۔
اس کے برعکس، روزانہ کولڈ ڈرنکس یا کولا پینے کو بڑھاپے میں صحت پر منفی اثر سے جوڑا گیا۔
ماہرین کے مطابق صحت مند طور پر عمر رسیدہ ہونے والی خواتین کو کافی سے معمولی فائدہ ہوا — روزانہ ایک اضافی کپ (زیادہ سے زیادہ پانچ کپ تک) ان کی صحت مند بڑھاپے کے امکانات کو 2 سے 5 فیصد تک بڑھا دیتا تھا۔
لیکن جن افراد نے کولڈ ڈرنکس استعمال کیں، ان میں صحت مند بڑھاپے کے امکانات ہر گلاس پر 20 سے 26 فیصد تک کم ہو گئے — جو ایک نمایاں منفی اثر ہے۔
تاہم سارہ مہدوی نے یہ بھی واضح کیا کہ کافی کوئی جادوئی حل نہیں۔ یہ معمولی فائدہ دے سکتی ہے، مگر اچھی صحت کے لیے متوازن غذا، باقاعدہ ورزش اور تمباکو نوشی سے پرہیز جیسی دیگر مثبت عادات بھی اپنانا ضروری ہیں۔