قومی اقتصادی سروے 2024-25 میں پاکستان کے صحت کے شعبے کی خراب صورت حال کا انکشاف ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں صحت کے شعبے کا جی ڈی پی میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، جو اس اہم شعبے کو درپیش عدم توجہی کی عکاسی کرتا ہے۔
رواں مالی سال میں صحت کے لیے 925 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جو ماہرین کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے مقابلے میں ناکافی ہے۔
سروے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں اوسطاً ایک ڈاکٹر 7 لاکھ 50 ہزار افراد کے لیے دستیاب ہے، جو صحت کے نظام پر بڑھتے ہوئے دباؤ کو ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ گزشتہ ایک سال میں ڈاکٹروں کی تعداد میں 20 ہزار کا اضافہ ہوا ہے اور مجموعی طور پر یہ تعداد 3 لاکھ 19 ہزار تک پہنچ چکی ہے، مگر مریضوں کا بوجھ کم نہیں ہوا۔
ڈینٹسٹس کی تعداد اب 39 ہزار 88 ہو چکی ہے، جبکہ نرسز 1 لاکھ 38 ہزار، دایائیں 46 ہزار 801، اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعداد 29 ہزار ہے۔
ملک بھر میں 1,696 اسپتال اور 5,434 بیسک ہیلتھ یونٹس فعال ہیں، تاہم شہری اور دیہی علاقوں میں ان سہولیات کی دستیابی میں واضح فرق ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان میں ہر ایک ہزار شیرخوار بچوں میں سے 50 بچے سالانہ جاں بحق ہو جاتے ہیں، جبکہ ملک میں اوسط متوقع عمر صرف 67 سال اور 6 ماہ ہے، جو عالمی معیار کے مقابلے میں کم سمجھی جاتی ہے۔