امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ’’بڑے پیمانے پر تصادم‘‘ کا امکان موجود ہے، اور اسرائیل کی جانب سے ایران کے جوہری تنصیبات پر حملہ "ممکن” ہے۔
جمعرات کے روز وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا:
’’میں امن چاہتا ہوں، ایران کے ساتھ معاہدہ چاہتا ہوں، لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ بڑے تصادم کا امکان موجود ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ قریب ہے، اور وہ نہیں چاہتے کہ اسرائیل کوئی ایسا اقدام کرے جو ان مذاکرات کو متاثر کرے۔
’’میں نے اسرائیل سے کہا ہے کہ فی الحال صبر سے کام لیں۔ اگر ہم معاہدے کے قریب ہیں تو حملہ اسے برباد بھی کر سکتا ہے، یا شاید تیز بھی۔ مشرق وسطیٰ میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
ٹرمپ کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب امریکہ نے اپنے سفارتی عملے کو خطے سے نکالنا شروع کر دیا ہے اور کئی سفارت خانوں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ نے عراق، اردن، اور متحدہ عرب امارات میں سفارتی عملے کی جزوی واپسی کا اعلان کیا۔
ٹرمپ نے کہا: ’’میں نہیں چاہتا کہ کل صبح مجھے اطلاع ملے کہ ہمارے لوگ کسی عمارت میں مارے گئے جہاں ہم نے بروقت خبردار نہیں کیا۔‘‘
دوسری جانب، ایران نے واضح الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ کسی بھی حملے کا ’’غیر متوقع اور شدید جواب‘‘ دیا جائے گا۔ ایرانی حکام کے مطابق وہ مکمل فوجی تیاری میں ہیں۔
ایران اصرار کر رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن ہے، مگر امریکہ اور یورپی طاقتیں مطمئن نہیں۔ جمعرات کو اقوام متحدہ کے ایٹمی ادارے (IAEA) نے ایک قرار داد منظور کی جس میں ایران پر جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا۔
یہ تمام پیش رفت ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب امریکہ اور ایران کے درمیان چھٹا اہم مذاکراتی دور اتوار کو عمان میں متوقع ہے۔
صدر ٹرمپ نے زور دیا کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت کبھی نہیں دی جائے گی، لیکن ساتھ ہی سفارتی حل پر زور دیتے ہوئے کہا:
’’آئیے معاہدہ کر لیں — اس سے پہلے کہ بم گرتے نظر آئیں۔‘‘